صحت کی دولت

621

سید جلال الدین عمری

مال دولت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اسے اس کا ’’فضل‘‘ کہا گیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحت اور تندرستی اس سے بڑی نعمت ہے۔ ایک صحابیؓ کا بیان ہے کہ ہم ایک مجلس میں تھے کہ رسول اللہؐ تازہ غسل فرما کر، جس کے آثار سرِ مبارک سے نمایاں تھے، تشریف لائے۔ ہم نے عرض کیا ’’حضورؐ! ہم آپ کو خوش و خرم دیکھ رہے ہیں‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں الحمدللہ میں تازگی اور انبساط محسوس کررہا ہوں‘‘۔ اس کے بعد مجلس میں دولت کا ذکر چھڑ گیا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کے اندر خدا کا خوف اور تقویٰ ہو اس کے لیے دولت میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن صحت و تندرستی اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے دولت سے بھی بہتر ہے۔ طبیعت کی تازگی اور بشاشت بھی ایک نعمت ہے۔
قوی مومن سے بہتر:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور مجھے زیادہ پسند ہے (گو ان میں سے) ہر ایک میں خیر ہے‘‘۔
ایمان خیر خوبی کا سرچشمہ ہے۔ جس شخص کے اندر ایمان و یقین ہے، اس کا دامن بھلائیوں سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ وہ جسمانی لحاظ سے بھی مضبوط اور طاقتور ہے، تو کمزور و ناتواں مومن کے مقابلے میں خدا اور بندوں کے حقوق بہتر طریقہ سے ادا کرسکتا ہے۔ کمزور انسان کو دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور جو شخص تندرست و توانا ہے، وہ دوسروں کو سہارا دے سکتا ہے۔
صحت کی حفاظت کی جائے:
صحت کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہدایت ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے اور اسے ضائع نہ کیا جائے۔ بعض اوقات دین داری کے جوش میں صحت کی طرف توجہ نہیں پاتی اور آدمی کی قوتیں جلد جواب دینے لگتی ہیں۔ یہ ہرگز مطلوب نہیں۔ عبادت اسلام کی جان ہے۔ اس کے بغیر اس کا وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن اسلام نے عبادت میں بھی صحت اور تندرستی کا پورا خیال رکھا ہے۔ اس نے عبادت میں اس قدر غلو اور انہماک سے منع کیا ہے، جس سے صحت اور تندرستی برباد ہوجائے اور آدمی زندگی کے دوسرے میدانوں میں جدوجہد اور تگ و دو کے قابل نہ رہے۔
روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کا عبادت میں انہماک بہت بڑھا ہوا تھا۔ رسول اللہؐ نے ان سے دریافت فرمایا کہ اے عبداللہ! کیا یہ بات صحیح ہے کہ تم دن میں مسلسل روزے رکھتے اور رات میں نماز پڑھتے ہو؟
انہوں نے عرض کیا کہ ہاں! یہ صحیح ہے۔ اس سے میرا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل ہو۔ آپؐ نے فرمایا:
’’ایسا نہ کرو، روزے رکھو بھی اور چھوڑ بھی دو، قیام بھی کرو اور سوئو بھی، اس لیے کہ تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارے لیے مہینہ میں تین دن روزہ رکھنا کافی ہے‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تم (دن رات) اس قدر عبادت کرو گے، تو تمہاری آنکھیں (برداشت نہ کرسکیں گی) اور حملہ کردیں گی، اور تمہارا نفس (یہ بوجھ اُٹھا نہیں سکے گا اور) تھک جائے گا۔
ایک اور روایت میں ’’نہکت‘‘ کا لفظ آیا ہے یعنی یہ کہ تم کمزور اور لاغر ہوجائو گے۔
ایک اور روایت میں بھی صحت کے ساتھ اس طرح کی زیادتی سے منع کیا گیا ہے۔ مجیبتہ الباہلیہ اپنے والد (عبداللہ بن لحارث) یا چچا کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہؐ کی ملاقات سے بہرہ یاب ہوئے اور واپس لوٹ گئے۔ پھر ایک سال بعد خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس عرصہ میں ان کی شکل و صورت اور ہئیت اس قدر بدل چکی تھی کہ آپؐ نے انہیں نہیں پہچانا۔
انہوں نے فرض کیا، اے اللہ کے رسولؐ! کیا آپ مجھے پہچان نہیں رہے ہیں؟ میں باہلی ہوں، گزشتہ سال حاضر خدمت ہوا تھا۔
آپؐ نے فرمایا، یہ تمہارا کیا حال ہوگیا ہے؟ تم بہت خوبصورت تھے۔
انہوں نے عرض کیا کہ جب سے آپ کے پاس سے گیا ہوں صرف رات کا کھانا کھاتا رہا ہوں (دن میں مسلسل روزے رکھے ہیں)۔
آپؐ نے فرمایا، تم نے اپنے نفس کو اس عذاب میں کیوں ڈالے رکھا؟ رمضان کے روزے رکھو اور ہر مہینے ایک روزہ رکھ لیا کرو۔
انہوں نے عرض کیا کہ اس میں اور اضافہ نہ فرمائیں۔ اس لیے کہ میرے اندر اس سے زیادہ روزے رکھنے کی طاقت ہے۔
آپؐ نے فرمایا: مہینے میں دو روزے رکھو۔ انہوں نے کچھ اور اضافے کی درخواست کی، تو آپؐ نے فرمایا کہ ہر مہینے تین روزے رکھو۔ اس پر بھی انہوں نے مزید اضافہ چاہا، تو آپؐ نے فرمایا اشہر حرم (رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم) میں اس طرح روزے رکھو۔ پھر انگشتہائے مبارک سے سمجھایا کہ تین دن روزے رکھو اور تین دن چھوڑ دو۔
صحت سے فائدہ اٹھایا جائے:
اسلام مسلمانوں پر زور دیتا ہے کہ صحت سے بھرپور فائدہ جائے لیکن جیسا کہ رسول اللہؐ فرماتے ہیں، انسان سے اس معاملے میں بڑی کوتاہی کا صدور ہوتا رہتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ رسول اللہؐ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:
’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں پڑتے رہتے ہیں اور وہ ہیں صحت اور فرصت‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے صحت اور تندرستی۔ دوسری نعمت ہے معاشی فراغت۔ ان دونوں نعمتوں سے بعض لوگ محروم ہوتے ہیں۔ بعض کو صحت اور تندرستی تو ملتی ہے لیکن معاشی پریشانیاں انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتیں۔ بعض کو معاشی فراغت حاصل ہوتی ہے تو صحت کی خرابی ان کے لیے غارت گر سکون ہوتی ہے۔ جو شخص ان دونوں نعمتوں سے ہمکنار ہو اس کے پاس قوت کار بھی ہوتی ہے اور لمحات فرصت بھی میسر ہوتے ہیں۔ ان سے وہ امور خیر میں فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ لیکن انسان بالعموم غفلت کا شکار ہوجاتا ہے اور ان میں سے کسی بھی نعمت سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔
صحت کو غنیمت سمجھا جائے:
احادیث میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب تک صحت اور تندرستی اور فرصت کے اوقات حاصل ہیں، آدمی انہیں غنیمت سمجھے، ان کی قدر کرے اور اس دھوکے میں نہ رہے کہ یہ دولت گراں بہا ہمیشہ حاصل رہے گی۔ وہ نہیں جانتا کہ کب صحت جواب دے جائے اور کب لمحات فرصت چھن جائیں۔ اس کے بعد بہت سے نیک کام جو وہ کرنا چاہتا ہے، کر نہیں پائے گا اور حسرت اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ صحیح سند سے حجرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ایک شخص کو نصیحت فرمائی:
’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں (کی آمد) سے پہلے غنیمت سمجھو… اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو مرض سے پہلے، اپنی دولت اور تونگری کو فقر و احتیاج سے پہلے، اپنی فرصت کو مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے‘‘۔
حدیث میں ’’غنیمت‘‘ کا لفظ اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ نعمتیں انسان کی سعی و جہد کے بغیر مفت میں مل گئی ہیں، اسی لیے وہ ان کی قدر و قیمت محسوس نہیں کرتا، لیکن جب یہ یکے بعد دیگرے چھنتی چلی جائیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں سے ایک ایک چیز کتنی گراں مایہ تھی اور کس بے خبری اور غفلت میں ضائع ہوتی چلی گئیں۔