عجیب تماشا

177

یہ عجیب تماشا ہے کہ عام انتخابات کے کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی ایک حلقے سے مسترد اور دوسرے حلقے سے منظور ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ رد و قبول کا کوئی متعین اصول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ریٹرننگ افسر کی صوابدید پر ہے کہ وہ کوئی بھی اعتراض لگا کر کاغذات مسترد کر دے۔ پھر جب یہی شخص عدالت میں چلا جاتا ہے تو آر او کا فیصلہ منسوخ کر کے اسے الیکشن لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ ایسی صورت میں آر او کی گرفت ہونی چاہیے کہ کیا اس نے ذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پر کاغذات مسترد کیے یا اس میں اس کی نا اہلی کا دخل تھا۔ اس کی وجہ سے ایک طرف تو امیدوار کو پریشانی ہوئی اور دوسری طرف عدالتوں کا وقت ضائع ہوا۔ مثال کے طور پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف اور پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی وزیر اور اب تحریک انصاف میں شامل فردوس عاشق اعوان کے کاغذات نامزدگی پہلے مسترد ہوئے مگر ایپلٹ ٹریبونل نے انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ پہلے کس بنیاد پر ان افراد کو الیکشن لڑنے سے روکا گیا۔ جن امیدواروں نے بڑے بڑے قرض لے کر واپس نہیں کیے ان پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دینی چاہیے۔ اس حوالے سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو قرض کو شیر مادر سمجھ کر ڈکار گئے چنانچہ عدالت نے کہا ہے کہ وہ 30کروڑ روپے کی جائداد گروی رکھوائیں تب الیکشن لڑسکتے ہیں۔ انہوں نے بینک سے لیا گیا قرض واپس نہیں کیا۔ بہرحال بہت سے معاملات صاف نہیں ہیں ۔ ایسے لوگوں کو بھی اجازت مل گئی ہے جن پر متعدد اعتراضات لگائے گئے ہیں ۔ دریں اثناء یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ متعدد امیدواروں کو نامزدگی فارم بھرنے نہیں آتے اور انہوں نے کئی غلطیاں کی ہیں جس پر الیکشن کمیشن نے بجا طور پر کہا ہے کہ جن کو فارم بھر نا نہیں آتا وہ اسمبلیوں میں پہنچ کر کیا کریں گے۔ لیکن کتنے ہی ایسے ہیں جو اسمبلیوں میں پہنچ کر کچھ نہیں کرتے۔ عمران خان نے بھی فارم کا ایک خانہ خالی چھوڑ دیا تھا چنانچہ گزشتہ روز پیش ہو کر خانہ پری کی گئی۔ شیخ رشید بھی کچھ بھول گئے تھے۔ ایسے اور بھی ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ اسمبلی اور سینیٹ میں اکثر بل انگریزی میں ہوتے ہیں جو بیشتر کے سر سے گزر جاتے ہیں ۔ جانے پارلیمانی کارروائی اردو میں کب ہوگی؟ اس کا آغاز نامزدگی فارم سے ہو جانا چاہیے تھا۔