پانی کا بحران، کچھ لیجیے

179

کراچی میں پانی کا بحران بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے مختلف علاقوں میں احتجاج ہو رہاہے۔ کئی مقامات پر مظاہرین نے سڑکیں بند کر کے احتجاج کیا اور جلوس نکالے۔ پیپلز پارٹی کا گڑھ کہلانے والے علاقے لیاری کے باشندے بھی پانی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ اس علاقے سے پیپلز پارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری بھی قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے جارہے ہیں۔گزشتہ 10برس سے سندھ پرپیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے لیکن وہ پورے شہر کو تو کیا اپنے سیاسی قلعہ لیاری کو بھی پانی نہیں دے سکی۔ گزشتہ منگل کو بھی بلوچ کالونی، گلشن اقبال اور دیگر علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی پر مشتعل افراد سڑکوں پر نکل آئے اور ٹائر جلا کر ٹریفک معطل کردیا۔ ایسی صورت حال میں ایس ایس پی ویسٹ کے حکم پر گھر کی ضروریات کے لیے دور دراز سے پانی لے کر آنے والوں کو پکڑا جارہا ہے اور پانی پر بھی بھتا وصول کیا جارہاہے۔ حب ڈیم سوکھ چکا ہے اور اگر جلد ہی باران رحمت کا نزول نہ ہوا تو پیاسے عوام کا اشتعال مزید بڑھ جائے گا۔ صورت حال کو خراب تر کرنے میں دستیاب پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا دخل بھی ہے گزشتہ منگل ہ کو بلدیہ کراچی کا 27ارب 16کروڑ روپے کا بجٹ منظور ہوا ہے لیکن بجٹ میں پانی اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوئی رقم نہیں رکھی گئی جس پر حزب اختلاف نے شدید احتجاج کرتے ہوئے بائیکاٹ کردیا اور بجٹ کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ اس موقع پر میئر کراچی اور سندھ پر 10برس سے حکمران زرداری لیگ کے خلاف بھی نعرے بازی ہوئی اور چور، چور کا شور مچایا گیا تاہم مسلم لیگ ن کے بلدیاتی ارکان نے کسی مصلحت کے تحت میئر کراچی کی حمایت کی۔ بلدیاتی بجٹ میں پانی کی قلت دور کرنے کے لیے کسی منصوے کا کوئی ذکر نہیں اور دوسرا اہم مسئلہ ٹرانسپورٹ بھی نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اس پر بھی میئر کراچی وسیم اختر نے دعویٰ کیا کہ بجٹ تمام مسائل کا احاطہ کرے گا اور ہمارا بنیادی نظریہ غیر ضروری اخراجات میں کمی لانا ہے۔ غالباً پانی اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی کو بھی غیر ضروری اخراجات کی فہرست میں ڈال کر ان مسائل کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ پانی کی عدم دستیابی کی صورت حال میں ایک بار پھر توجہ دلانا ضروری ہے کہ جتنا پانی دستیاب ہے اس کو بہت احتیاط سے استعمال کیا جائے اور ایک ایک بوند بہاتے ہوئے ان کا خیال کیا جائے جو بوند بوند کو ترس گئے ہیں ۔ پانی ہی سے زندگی ہے۔ اس سے کھیتوں اور باغوں میں ہریالی ہے اور مخلوق کو رزق ملتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں میں بارشوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ بلوچستان سے آنے والے برساتی پانی سے حب ڈیم کے خشک ہونٹ بھی تر ہو جائیں گے۔ آج، کل میں کراچی میں بھی بارش کی نوید ہے۔ ان شاء اللہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ لیکن بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کی تدبیریں بھی کرلی جائیں۔ گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں کوئی ڈیم نہیں بنا جب کہ چین میں 10سال میں دو سو سے زائد ڈیم بن گئے اور بھارت نے 24ڈیم بنا ڈالے۔ اس نے ان دریاؤں پر بھی ڈیم بنا لیے جن کے پانیوں پر پاکستان کا حق ہے۔ یہاں کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہوگیا ہے اور کوئی دوسرا ڈیم مکمل نہیں ہوا۔ حکمرانوں نے قوم کو پیاسا مارنے اور کھیتوں کو بنجر کرنے کی پوری پوری تیاری کرلی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ آئندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ خدا نہ کرے ایسا ہو کہ پاکستان کے عوام پانی کے لیے آپس ہی میں جنگ کرنے پر اتر آئیں۔