عافیہ کا مقدمہ کون لڑے گا؟ 

246

ذرا تصور کیجیے کہ ایک قابل خاتون پر مسلسل کیا بیت رہی ہوگی کہ وہ امریکی جیل میں اپنے نا کردہ گناہ کی پاداش میں چھ فٹ لمبے اور اتنی ہی چوڑی جگہ پر 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔ یہ سزا دنیا کے سب سے طاقت ور ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک امریکا نے پاکستان کی باصلاحیت بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دی ہے۔ عافیہ اپنی سزا کے پندرہ سال گزار چکی ہیں۔ مزید انہیں 71 سالہ گزارنے ہیں۔ امریکا میں عورت کی اوسط عمر 81 سال 2 ماہ ہے۔ اس طرح عافیہ وہ واحد مظلوم عورت ہے جنہیں کسی بھی خاتون کی اوسط عمر سے زیادہ مدت کی سزا دی گئی ہے۔ یہ سزا خود امریکا کے لیے ایک کلنک ہے۔ مگر داغدار امریکا اور اس کے حکمرانوں کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ وہ تو دنیا پر بدمعاشی کے نشے میں مست ہیں۔
گمان ہوتا ہے کہ عافیہ کے پاس امریکا کا کوئی ایسا راز ہے جیسے چھپانے کے لیے انہوں نے عافیہ کو سب سے چھپا کر طویل قید میں بند کردیا۔ یا پھر امریکا کو عافیہ سے خطرہ ہے اگر ایسا ہی تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بہن عافیہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے تب ہی تو طاقتور ہونے کے دعویدار ملک نے ان سے خوفزدہ ہوکر انہیں قید کیا ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی ہم سب پاکستانیوں کی بھی ہے جو کراچی سے مارچ 2003 میں اغوا ہوکر افغانستان میں امریکیوں کے حوالے پہنچائی جانے والی عافیہ کو فوری برآمد نہیں کراسکے نتیجے میں وہ اب بے گناہی کی طویل سزا جھیل رہی ہیں۔ کوئی ہے جو عافیہ کو اس ظلم جاریہ سے نجات دلانے۔ کوئی ہے جو امریکا سے پوچھے کہ جو معصوم اپنے تین بچوں کے ساتھ کراچی سے اغوا کرلی گئی تھی کس طرح افغانستان پہنچائی گئی؟ کیا عافیہ کا مقدمہ عالمی عدالت میں چلانے کے لیے بھی اقدامات نہیں کیے جاسکتے؟؟ اگر بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری کا کیس عالمی عدالت میں چلایا جاسکتا ہے تو پھر مظلوم عافیہ کا مقدمہ کیوں نہیں چلایا جاسکتا؟۔
میرا خیال ہے کہ اگر پاکستانی حکمراں چاہیں تو یہ ممکن ہوسکتا ہے یہی نہیں بلکہ لاہور میں نوجوانوں کو قتل کرنے والا امریکی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بدلے میں بھی اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت عافیہ کو قید سے نجات دلاکر وطن واپس لاسکتی تھی۔ مگر ایسا نہیں ہوسکا تھا۔
پھر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ سمیت ہزاروں لوگوں کو چیف جسٹس پاکستان کے دلیرانہ فیصلوں اور نوٹسوں سے توقع تھی کہ وہ عافیہ کی رہائی کے لیے کچھ کریں گے۔ یہ توقع کیوں نہیں لگائی جاتی جبکہ چیف جسٹس نے عافیہ کی زندگی کے حوالے سے خبروں کا ازخود نوٹس لیا تھا اور عافیہ کی رہائی کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔ مگر اس خبر نے یقیناًقوم کو مایوسی کی حد تک فکر مند کردیا ہوگا۔ یہ خبر تھی کہ: ’’عدالت عظمیٰ نے عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کی درخواست خارج کردی‘‘۔ اخبار کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ: ’’معلوم کرنا چاہتے تھے کہ عافیہ زندہ ہیں یا نہیں۔ جس مقصد کے لیے وزارت خارجہ کو نوٹس جاری کیا تھا، اب معلوم ہوگیا کہ عافیہ صدیقی زندہ ہیں لہٰذا اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے‘‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ: ’’اگر آپ عافیہ صدیقی کو آزاد کرانا چاہتے ہیں تو امریکی عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں۔ ہم امریکی حکومت کو کیسے حکم دے سکتے ہیں؟‘‘۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملے میں حکومت پاکستان اور عدالتیں کچھ نہیں کرسکتیں لہٰذا ہم سے وہ کروائیں جو ہمارا اختیار ہے۔ عدالتیں امریکا میں عافیہ صدیقی کے معاملے پر کردار ادا نہیں کرسکتیں، ہمیں وہ کام کروانے ہیں جو ہم کرسکتے ہیں، ہمارا حکم امریکی عدالت اٹھا کر پھینک دے تو ہماری عدلیہ کی کیا عزت ہوگی؟‘‘۔ چیف جسٹس صاحب بہت شکریہ کہ آپ نے یہ معلوم کروالیا کہ عافیہ زندہ ہے۔ مگر اب یہ بھی رہنمائی کردیں کہ قوم کی اس بیٹی کا مقدمہ کون لڑے گا؟ اور کب لڑے گا؟ جناب چیف جسٹس صاحب اگر ہم بحیثیت پاکستانی اپنی اور ملک کی عزت کے بجائے اپنے اداروں اور اپنی ذات کی عزتوں کی فکر کریں گے تو یقیناًکوئی دوسرا بھی ہمارا مقدمہ نہیں لڑے گا، ہماری فکر نہیں کرے گا۔ آپ عدلیہ کی عزت کی فکر کریں۔ قوم آپ کے لیے ’’دعائیں‘‘ کرتی رہے گی۔