قرض خوروں کو انتباہ

301

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ منگل کو از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے قرض لے کر کھا جانے والوں کو انتباہ کیا ہے کہ 84 ارب روپے کے قرضے واپس کردیں یا پھر مقدمات کا سامنا کریں ۔ عدالت عظمیٰ نے ملک بھر کے 222 بااثر افراد اور کمپنیوں کی جانب سے مختلف مالیاتی اداروں سے 1971ء سے لے کر 2009ء کے دوران میں 84 ارب روپے کے قرضے لے کر معاف کرالیے۔ اب یا تو وہ اصل رقم کا 75 فیصد جمع کروا دیں یا پھر بینکنگ کورٹ میں مقدمات کا سامنا کریں، ان کے مقدمات نیب کو بھی بھیج سکتے ہیں ۔ جناب جسٹس ثاقب نثار کا کہناتھا کہ آپشن دینا ہمارا کام ہے، کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا، اگر قوم کا پیسہ واپس نہیں لاسکتے تو کرس�ئ عدل پر بیٹھنے کا کیا فائدہ، ایک ایک پائی واپس لیں گے اور مارک اپ بھی طے کریں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جناب چیف جسٹس نے قوم کے لٹیروں پر ہاتھ ہلکا رکھا ہے یہ کہہ کر کہ کسی کو مجبور نہیں کریں گے۔ یہ خائن اور قوم کا پیسہ کھا جانے والے ایسے تو قابو میں نہیں آئیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عدالت عظمیٰ ان تمام 222 بااثر افراد اور کمپنیوں کے اثاثے ضبط کرے۔ یوں بھی یہ معاملات 2009ء تک کے ہیں کم از کم 9 سال گزر گئے۔ اس عرصے میں ان لٹیروں نے قرض کی رقم سے اپنے اثاثے کہیں سے کہیں پہنچا دیے ہوں گے اور خوب عیش کرلیے ہوں گے۔ اب یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی کروڑوں روپے کے نادہندہ ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد با اثر افراد ادھار لے کر کھاگئے۔ عجیب بات ہے کہ ایک عام آدمی اگر چند ہزار یا لاکھ دو لاکھ کا نادہندہ ہو یا یوٹیلٹی بلز ادا نہ کرپایا ہو تو اس کی جائداد ضبط کرنے کا حکم جاری ہوجاتا ہے۔ ویسے عام آدمی کو یہ بینک کروڑوں روپے کے قرض کہاں دیتے ہیں۔ بینک اگر قرض دیتے ہیں تو اس کے عوض ضمانت طلب کرتے ہیں جو قرض ادا نہ ہونے کی صورت میں ضبط ہوجاتی ہے۔ کیا ان سیکڑوں با اثر افراد کو بغیر کسی ضمانت کے قرض فراہم کردیا گیا۔ عدالت عظمیٰ ان بینکوں سے بھی تو پوچھے کہ کس بنیاد پر کروڑوں روپے قرض دیا گیا اور اس کے عوض کیا ضمانت حاصل کی گئی۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی بہت با اثر شخص کے حکم پر بینک قرض دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اسی کی وجہ سے کروڑوں لے کر کھا بھی جاتے ہیں۔ ایسے کئی افراد کے نام زبان زد عام ہیں جن کے دباؤ پر بینکوں نے قرضہ دیا۔ عدالت عظمیٰ نے 1971ء سے قرض لے کر معاف کرانے والوں کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد 1972ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت برسر اقتدار لائی گئی تھی لیکن یہ معاملات تو 47 سال پرانے ہوگئے ان کا ریکارڈ ملنا بھی دشوار ہوگا اور قرض خوروں میں سے ہوسکتا ہے کچھ لوگ دنیا ہی چھوڑ گئے ہوں۔ محترم چیف جسٹس کو دائرہ تنگ کرکے گزشتہ3 عشروں کے قرض خوروں پر توجہ رکھنی چاہیے تو اور بھی کئی بڑے نام سامنے آجائیں گے۔