پان اور کرانچی

1254

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب ۔۔۔ توبہ توبہ ۔۔۔ سابق خادمِ اعلیٰ پنجاب ۔۔۔ جناب شہباز شریف کراچی سے رُکن قومی اسمبلی بننے کے اُمیدوار ہیں۔ ابھی پچھلے پرلے روز انہوں نے کراچی میں اپنی انتخابی مہم کے دوران میں ذرائع ابلاغ نمائندوں سے گفتگو کی۔ اس موقع پر ایک صحافی نے سوال کیا:
’’کرانچی کے سیاسی لوگوں نے تو اپنے علاقے میں کچھ بھی ڈلیور نہیں کیا۔ اب آپ کرانچی آئے ہیں۔ لوگ لاہورکی مثال دیتے ہیں۔ مگر آپ کرانچی کو لاہور بنانے کا جو خواب دکھا رہے ہیں کیا واقعی اسے پورا کریں گے؟‘‘
اس پر شہباز شریف صاحب نے کہا کہ:
’’میں آپ کو خواب نہیں دکھا رہا، نہ آپ خواب دیکھنے کے قائل ہیں۔ میں آپ کو حقیقت بتا رہا ہوں کہ ’’کرانچی‘‘ نہیں ’’کراچی‘‘ کو اِن شاء اللہ۔۔۔‘‘
مگر ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ مذکورہ صحافی کے تلفظ اور شہباز شریف صاحب کی اصلاح پر لوگ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ شہباز شریف صاحب بھی ہنسے اور اُن کا قہقہہ سب سے طویل اور سب سے بلند تھا۔ پھر انہوں نے فرمایا:
’’ہمارے بھائی بہن جو پان کھانے والے یہاں رہتے ہیں، اُن کے کرانچی کو میں لاہور بناؤں گا ان شاء اللہ ۔۔۔ بلکہ لاہور سے بہتر بنا کے دوں گا ان شاء اللہ‘‘۔
کثرتِ پان خوری کی وجہ سے کراچی کے اکثر لوگ (بقول یوسفی ۔۔۔ ’’اگر نزلہ نہ ہو تب بھی‘‘) کراچی کو ’’کرانچی‘‘ ہی کہتے ہیں۔ مگر شہباز شریف کا یہ فقرہ غضب ہوگیا۔ ان کے سیاسی مخالفین کی دُم پر جو پاؤں پڑا تو وہ بھاؤں قاؤں کرتے ہوئے میدان میں کود پڑے۔ کراچی کے ساتھ ان سیاسی لوگوں نے جو کچھ کیا ہے، اُس کے باب میں کہنے کی تو ان میں کچھ جرأت ہمت پیدا نہ ہو سکی۔ البتہ ’’کرانچی‘‘ اور کراچی والوں کی ’’پان خوری‘‘ کو انہوں نے ’’اِشو‘‘ بنا لیا۔ ایک ایسے چینلی، سیاسی اور مسلکی مسخرے نے، جس کی اوندھے منہ لیٹ کر زبان اور آنکھیں نکال کر کھنچوائی ہوئی تصویر نے سماجی ذرائع ابلاغ پر بڑی گردش کی اور جس کا نام لکھنے سے ہمارا قلم ناپاک ہوتا ہے، یہ کہا:
’’کرانچی والے شہباز شریف کو پان میں لپیٹ کر کھا جائیں گے۔ یہ ایسے ہی ہیں کراچی والے‘‘۔
اگرچہ اُن کا دعویٰ ایک ایسا دعویٰ ہے جو ’’عملاً‘‘ ممکن نہیں ہے۔ مگر پھر بھی۔۔۔ یہ تو اب 25جولائی 2018ء ہی کو پتا چلے گا کہ ’’کرانچی‘‘ والے پان میں لپیٹ کر کس کو کھاتے ہیں، اور کس کو پان کی پیک کی طرح اُگال دان میں تھوک آتے ہیں۔
سیاسی بدذوقوں نے تو شہباز شریف صاحب کی خوش ذوقی اور خوش مزاجی کو (حتیٰ کہ اُن کے گانا گانے کو بھی کہ ۔۔۔ اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم۔۔۔ تمہارے بِنا ہم بھلا کیا جئیں گے) اپنے متعصبانہ بدبودار خیالات کے اظہار کا بہانہ بنا لیا۔ مگر شہباز شریف صاحب کے اس فقرے پر سماجی ذرائع ابلاغ نیبھی اچھا خاصا اُدھم مچا رکھا ہے۔ خوش ذوقی کا جواب خوش ذوقی ہی سے دینا چاہیے۔ کسی کے جواب ہی سے کسی کے صاحبِ ذوقِ لطیف ہونے یا اس کے برعکس ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں شہباز شریف صاحب کو سب سے دلچسپ جواب ہمارے ’’کرانچی‘‘ والے بھائی، مشہور مردِ ظریف جناب منیرؔ پٹھان نے دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’پان کھانے والے، گدھے کھانے والوں سے ہزار درجے بہتر ہیں‘‘۔
یہ سانحہ بھی محترم شہباز شریف صاحب کے دورِ ’’خدمتِ اعلیٰ‘‘ ہی میں لاہور میں رُونما ہوا تھا۔ ویسے گدھے کھانے والوں کے شہر لاہور میں پان کھانے والے (انسان) بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اگر اُن کی تعداد کراچی کے پان خوروں سے زیادہ نہیں تو شاید کم بھی نہیں۔
لسانی طبقات، مختلف شہروں اور مختلف صوبوں کے مابین ہلکی پھلکی نوک جھونک تو ہمیشہ سے چلتی آئی ہے۔ اگر لہجہ متعصبانہ نہ ہو تو اس سے آپس کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور محبت بھی بڑھتی ہے۔ مثلاً اس عاجز کالم نگار کی پہلی پُر مزاح کتاب ’’زیر و زبر‘‘ پر صوبہ خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے، ممتاز اہل قلم اور دانشور، ڈائریکٹر پاکستان اسٹدی سینٹر پشاور یونیورسٹی، ڈاکٹر فخر الاسلام نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’پٹھانوں کا اُردو مزاح پر بہت بڑا احسان ہے۔ اگر پٹھان نہ ہوتے تو اُردو ادب اپنے آدھے مزاحیہ سرمائے سے محروم رہ جاتا‘‘۔
پان کھانا پہلے تہذیب کا حصہ تھا، اب اس کے بالکل برعکس صفت کا حصہ بن گیا ہے۔ پان تو مولانا مودودیؒ اور مولانا شاہ احمد نورانی ؒ بھی کھایا کرتے تھے۔ مگر اُن کا لباس ہی نہیں، اُن کے دانت بھی موتیوں کی طرح چمکا کرتے تھے۔ آج کل کراچی کے ہر دوسرے تیسرے شخص کا منہ کتھے کی کُلھیابنا ہوا ہوتا ہے۔ لوگوں کے لباس، شہر کی دیواروں اور عوامی عمارتوں کے کونوں کھدروں پر نظر ڈالیے تو سب کے سب پان کی پیک سے ’’لالہ زار‘‘ دکھائی دیں گے۔ یہی حال ان کے لباس کا بھی نظر آتاہے۔ سرِ راہ کسی سے کوئی بات پوچھ بیٹھیے تو وہ فوراً آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر بلبلانا شروع کر دے گا۔ ایسے میں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ شخصِ مذکور ہم سے مخاطب ہے یا کسی خلائی مخلوق سے خطاب کر رہا ہے۔ خیر، آسمان کی طرف منہ اُٹھا لینا بھی بڑا غنیمت ہے۔ نہ اُٹھائے تو ہمیں خود اپنا منہ اُٹھا کر بھاگتے ہوئے ہر آئے گئے سے پوچھنا پڑے کہ پانی کا قریبی نلکا کہاں نصب ہے؟
کرانچی، پان اور پٹھان کا ذکر آیا تو ڈاکٹر فخرالاسلام کے مطالعے کے مطابق کئی مزاح پارے ذہن میں کلبلانے لگے۔ جی چاہا کہ:
یاد اپنی تمہیں دلاتے جائیں
پان کل کے لیے لگاتے جائیں
یعنی ایک لطیفہ بھی سناتے جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ پشاور سے کرانچی آئے ہوئے ایک خان صاحب ایک پان کی دُکان پر پہنچے۔ ایک پان بنوا کر کھایا، پسند آیا۔ مزید بنوایا مزید کھایا ۔۔۔ پھر مزید بنوایا اور مزید کھایا۔ غرض وہیں کھڑے کھڑے کوئی چالیس پچاس پان کھا گئے۔ اگلے روز خان صاحب پھر پان کی دُکان کے آگے سے گزرے۔ گزرے تو گزرتے ہی چلے گئے۔ پان کی دُکان والے نے، جسے گئے وقتوں میں ’’پنواڑی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا، خان صاحب کو پکارکر پوچھا:
’’خان صاحب! آج پان نہیں کھائیں گے؟‘‘
خان صاحب تیز تیز قدموں سے جاتے ہوئے لمحہ بھر کو رُکے اور وہیں سے بولے:
’’نئیں بائی! بوت بوت مہربانی۔ آج اَم نے کانا کا لیا اے‘‘۔