آپ کو اب پتا چلا!!!

251

آج کل کے تیز ترین ابلاغیات کے دور میں پاکستان بدلنے کے دعویداروں کو خبریں بہت تاخیر سے مل رہی ہیں۔ اگر بات کریں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چودھری نثار کی۔۔۔ ان کو 34 برس بعد پتا چلا کہ میاں نواز شریف پارٹی صدارت کے لیے اہل نہیں تھے۔ بعد میں وضاحت کی کہ وہ اکیلے نہیں بلکہ اور لوگ بھی اہل تھے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات سمجھنے میں اتنا عرصہ کیوں لگا۔ اور یہ بات اس وقت کیوں پتا چلی جب نواز شریف نے ٹکٹ کے لیے پارٹی سے وفاداری کی شرط رکھ دی۔ ہم میاں نواز شریف صاحب کے سیاسی فیصلوں ، حکمرانی کے انداز، ان کی دولت میں بے پناہ اضافے اور بہت سے معاملات میں ان سے اختلافات رکھتے ہیں یا یوں کہتے ہیں کہ ان کے معاملات ہمیں صاف نظر نہیں آتے۔ لیکن ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں جس انداز سے مہم چل رہی ہے جو انداز گفتگو اختیار کیا جارہا ہے اس سے تو لگتا ہے کہ ٹی وی اینکرز اور تجزیہ نگار اب سیاسی پارٹیوں کے باقاعدہ کارکن ہیں بلکہ بعض تو مشہور لیڈروں سے زیادہ چیخنے چلانے لگے ہیں۔ اگر آج کوئی آئے اور ہمیں بتائے کہ بھارت نے کشن گنگا ڈیم بنالیا ہے تو ہم اس سے سوال کریں گے کہ تمہیں آج پتا چلا۔ ہم کیا یہ سیاسی کارکن صحافی بھی یہی سوال پوچھیں گے کہ آپ کو آج پتا چلا۔ یہی نہیں اگر کوئی سیاسی مسئلہ بھی اس طرح سامنے آئے کہ کوئی ٹی وی چینل یہ دعویٰ کرے کہ میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے تو یہ سیاسی کارکن قسم کے اینکرز اس ٹی وی کا مذاق اڑانے لگیں گے کہ تمہیں آج پتا چلا اور ایسا کوئی بھی دعویٰ یہ لوگ تسلیم نہیں کریں گے لیکن عجیب رویہ ہے کہ جب چودھری نثار شریف خاندان کے بارے میں یہ کہہ رہے تھے کہ اگر میں نے منہ کھول دیا تو شریف خاندان منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس پر ان اینکرز کو یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ کو آج پتا چلا؟؟؟ اس کے بجائے وہ ان سے کرید کرید کر شریف خاندان کے خلاف سوالات کرنے لگے۔
بات صرف چودھری نثار کی نہیں ہے۔ زعیم قادری نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا اور کہا کہ لاہور حمزہ شہباز اور ان کے باپ شہباز شریف کا نہیں ہے۔ زعیم قادری جب میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو بدعنوان قرار دے رہے تھے تو ان اینکرز کو پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ کو آج پتا چلا؟؟ لیکن ایک چینل پر تو اینکر ہی مسلم لیگ کی کرپشن کے دعوے کرنے لگے۔ اور عمران خان کی طرح چیخ رہے تھے۔ اس طرح جب چودھری عبدالغفور مسلم لیگ کی بدعنوانیاں بتارہے تھے تو ان سے کسی ٹی وی اینکر نے یہ سوال نہیں کیا کہ آپ کو یہ باتیں آج پتا چلیں۔ اگر کوئی فوجداری مقدمہ زیر سماعت ہو اور پولیس کو اس قسم کے جرائم کی تفتیش دی جائے تو وہ سب سے پہلے انکشاف کرنے والوں کو زیر تفتیش لائے گی۔ 34 برس کسی کا بوجھ اٹھانے والا اس پارٹی کی ایک ایک اینٹ رکھنے والا کسی بھی کرپشن سے کیونکر میرا ہوسکتا ہے، وہ تو 34 برس ساتھ دینے کا حساب مانگے گی۔ جو شخص کل تک مسلم لیگ کا ترجمان تھا وہ کیوں الگ ہوگیا۔ اس بارے میں کوئی نہیں پوچھ رہا۔ ایک لاکھ 22 ہزار ووٹ لینے والے کی جگہ ٹکٹ مانگا جائے تو پارٹی کیا کرے۔ ایسا ہی مجلس عمل نے بھی کیا تو محروم الگ جا کھڑا ہوا۔ چودھری عبدالغفور میاں صاحب کی کرپشن کا حساب بعد میں مانگیں۔۔۔ لیکن اپنی پوزیشن، عہدے اور بچوں کے مفادات کا حساب تو دیں۔
ایسا لگ رہا ہوگا کہ ہم مسلم لیگ کی وکالت کررہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی چھوڑنے والوں کو اب اپنی پارٹی کی کرپشن کا پتا چلا؟ ہمیں ان رہنماؤں سے جتنا شکوہ ہے اس سے زیادہ میڈیا سے ہے۔ جب 28 برس ’’را‘‘ کا ایجنٹ رہنے کا اعتراف کرنے والے مصطفی کمال الطاف حسین پر الزامات لگا رہے تھے تو کسی نے ان سے 28 سالہ غداری کا حساب نہیں مانگا۔ صرف چار مرتبہ رونے سے معافی مل گئی۔ آج بھی یہی ہورہا ہے، میاں شہباز شریف بالآخر کراچی پہنچ ہی گئے، فرمانے لگے کہ کراچی کا ٹرانسپورٹ اور پانی کا مسئلہ حل کریں گے، کچرا صاف کردیں گے، کسی صحافی نے تو سوال نہیں پوچھا کہ کراچی کا ایک بیٹا زاہد سعید کھڑا ہوگیا اس نے پوچھا کہ جناب جب کراچی کی آبادی کم ظاہر کی جارہی تھی تو آپ نہیں آئے۔ جب کراچی کی سیٹیں کم کردی گئیں تو آپ نہیں آئے، آپ یہی کہہ دیتے کہ ہم یہ کام نہیں کرسکتے، کراچی کو نقصان پہنچانے میں اس شہر کے خود ساختہ نمائندوں کے علاوہ صوبائی اور مرکزی حکومت نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ ظاہر ہے شہباز شریف صاحب سے پوچھنا چاہیے تھا کہ مرکز نے K-4 کے لیے کیا اقدام کیا، سرکلر ریلوے اور بجلی کے ڈاکو کے الیکٹرک کے خلاف کیا اقدام کیا، پہلے کیوں نہیں پتا تھا۔ بات صرف یہی ہے کہ عوام سے قبل میڈیا کو یہ سوال کرنا چاہیے کہ آپ کو اب پتا چلا۔ یہ جو کراچی کی بلدیہ ہے اس نے محکمہ موسمیات کی جانب سے کراچی میں بارش کی پیشگوئی پر برساتی نالوں کی صفائی کا حکم دے دیا۔ میڈیا ان سے سوال نہیں کررہا کہ آپ کو پیشگوئی کے بعد پتا چلا کہ نالے صاف نہیں ہیں؟؟۔
آخری واردات نیب نے کر ڈالی انہیں مہینوں سے درج مقدمات میں مطلوب ملزم قمرالاسلام اس وقت تک نظر نہیں آیا جب تک قمرالاسلام کو چودھری نثار کے مقابلے میں (ن) لیگ کا ٹکٹ نہیں مل گیا۔ سوال تو یہ ہے کہ اتنی دیر میں کیوں پتا چلا؟؟ ہوسکتا ہے یہ اتفاق ہو لیکن اتفاقات کی ایک قطار ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے معاملات کا بھی اتنی تاخیر سے پتا چلا اور ابھی تو کچھ پتا نہیں چلا۔ جب پتا چلے گا اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہوگا۔