امیدواروں کے گھیراؤ کی ہوا

179

اس بار اسمبلیوں کے امیدوار اپنے رائے دہندگان کے محاصرے میں ہیں جو ان کا احتساب کرنے پر تل گئے ہیں۔ منتخب ارکان نے نہ تو کبھی ووٹ کو عزت دی نہ اپنے ووٹر کو۔ اس حوالے سے ن لیگ کے امیدوار سردار جمال لغاری نے اپنے طبقے کی بہت صحیح نمائندگی کی ہے اور اپنے ووٹر سے کہا ہے کہ ایک ووٹ پر اکڑتے ہو۔ لغاری قبیلے کے ایک سردار سے ووٹر کا کوئی سوال کرنا پورے قبیلے کی توہین ہے۔ لوگ اب تک جمہوریت کے وہم میں مبتلا ہیں۔ کبھی تو ایک عام سا شخص اٹھ کر خلیفہ وقت سے پوچھ لیتا تھا کہ کرتے کا فاضل کپڑا کہاں سے آیا اور وہ اسے مزہ چکھانے کے بجائے بڑے تحمل سے وضاحت کرتے تھے۔ کوئی اگر سردار، وڈیرہ یا خان نہیں بھی ہے تو اپنے اثر و رسوخ اور دولت کے بل پر وڈیرہ شاہی اس کے خون میں رچ بس گئی ہے۔ جاگیردار صرف وہی نہیں جس کے پاس آصف زرداری کی طرح بہت وسیع جاگیر ہو بلکہ جاگیرداری ہمارے حکمران طبقے کا مزاج بن گئی ہے۔ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ آپ نے اپنے حلقے کے لیے کیا کیا تو وہ ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سیہون شریف میں مراد علی شاہ اپنے گھر سے باہر آئے تو ایک ووٹر نے شکوہ کیا کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا؟ میرے والد پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکن ہیں لیکن ہمارے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ اس سوال پر شاہ صاحب برہم ہوگئے اور کچھ صحافی اس موقع پر وڈیو بنارہے تھے تو ان کو پہلے تو روکا گیا پھر ایک صحافی کا کیمرہ ہی چھین لیا لیکن یہ وڈیو منظر عام پر آگئی۔ ایسے رہنما یا تو گھر ہی سے نہ نکلیں یا پھر کیمروں پر پابندی لگادیں تاکہ ان کا رد عمل سامنے نہ آئے، ان کے اعمال تو سامنے آہی جاتے ہیں۔ جو شخص اپنے ووٹروں پر چڑھ دوڑے وہ اقتدار میں آکر عوام کے لیے کیا کرے گا، کیا وہی جو مراد علی شاہ نے یا ان کی پارٹی نے 10 سال میں سندھ میں کیا ہے۔ مراد علی شاہ سے بہتر رد عمل تو قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا تھا پنوں عاقل میں ان سے بھی پوچھاگیا تھا کہ آپ نے10سال میں کیا کیا۔ لیکن وہ برہم ہونے کے بجائے مسکراکر آگے نکل گئے اور کوئی تکرار نہیں کی۔ ویسے یہ 10 سالہ کارکردگی کا جواب بھی تھا۔ سابق صوبائی وزیر ناصر شاہ کو بھی سکھر کے نواحی علاقے میں رائے دہندگان نے گھیر لیا اور علاقے میں کام نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔ خورشید شاہ اور ناصر شاہ کی گاڑی علاقہ مکینوں نے روک لی۔ ان کا کہناتھا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں نوکری کے لیے بھاگ بھاگ کر تھک گئے لیکن نوکری نہ ملی، ملتی ہے تو خاکروب کی۔ دونوں نے آئندہ کام کرنے کا یقین دلاکر جان چھڑائی۔ صحافی کا کیمرہ چھیننے والے مراد علی شاہ نے جامشورو اور حیدرآباد میں گفتگو کرتے ہوئے رائے دہندگان کے احتجاج کو خوبصورت رنگ دیتے ہوئے کہاہے کہ ’’ہمیں5 برس کام نہ کرنے کا لوگ اپنائیت سے کہتے ہیں‘‘۔ ممکن ہے کہ آئندہ 5 سال بھی لوگوں کی یہی اپنائیت برقرار رہے کہ آئندہ بھی یہی ہوگا۔ صرف پیپلزپارٹی کے رہنما ہی گھیرے میں نہیں لیے جارہے بلکہ لاہور میں عمران خان کی قیام گاہ پر بھی احتجاج ہوا۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر مظاہرے تھمے نہیں ہیں، احتجاج کرنے والوں میں خواتین بھی شامل تھیں جن کو پارٹی سے نکالنے کی دھمکی دی گئی۔ ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر ن لیگ میں بھی اختلافات برقرار ہیں۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ناراض لیگی کارکنوں نے طلال چودھری کا گھیراؤ کرلیا اور لوٹے اٹھاکر احتجاج کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ووٹر زیادہ ہی باشعور ہوگئے ہیں۔ ممکن ہے کہ امیدواروں کو سیکورٹی طلب کرنی پڑے۔ عوام کی نمائندگی کے دعویدار عوام سے دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ اقتدار میں آکر تو آگے پیچھے درجنوں گاڑیوں کے حصار میں نکلتے ہیں ۔اس سے پہلے پہلے عوام ان سے سوال جواب کرلیں بعد میں کہاں نظر آتے ہیں۔