پیپلز پارٹی کا انتخابی منشور

443

پاکستان پیپلز پارٹی کے نو خیز صدر نشین بلاول زرداری نے اپنی پارٹی کا انتخابی منشور پیش کر دیا ہے ۔ اس منشور میں کوئی نئی بات تو نہیں ہے بلکہ بھٹو دور سے لگنے والے نعرے اور دعوے ایک بار پھر پیش کر دیے گئے ہیں ۔ مثلاً، روٹی ، کپڑا، مکان ، کے بھٹو کے دیے ہوئے مشہور نعرے کو بھوک مٹاؤ پروگرام کا نام دیا گیا ہے ۔ 1970ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا تھا جس پر کبھی عمل نہیں ہو سکا ۔ ان کے بعد بے نظیر بھٹو دوبار اقتدار میں آئیں اور پھر 2008ء سے 2013ء تک بلاول کے والد اور بھٹو کے داماد کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے اقتدار کے 5 سال نکالے ۔لیکن یہ نعرہ نعرہ ہی رہا ۔اب بلاول’’بھوک مٹاؤ پروگرام‘‘ لے کر رہے ہیں ۔ لیکن اس پر عمل کیسے ہو گا اس کی کوئی تفصیل نہیں چنانچہ خدشہ یہی ہے کہ حکمرانوں کی نہ ختم ہونے والی بھوک مٹانے کی کوشش ہو گی ۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی گزشتہ 10 سال سے حکومت میں تھی ۔ اسے شاید یاد نہیں رہا کہ تھر پارکر بھی سندھ میں ہے جہاں غذائی قلت اور بھوک کی وجہ سے سیکڑوں بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ بلاول کے منشور میں تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دینے کا اعلان ہے ۔ کاش ان شعبوں میں پارٹی کے زیر نگین صوبے سندھ میں بھی ایسا مثالی کام ہو جاتا کہ ان وعدوں پر یقین آنے لگتا۔ تھر پارکر ہی میں صحت کی ناکافی سہولیات نہیں بلکہ پورے صوبے کے اسپتال کسمپرسی کا شکار ہیں ۔ تعلیم کی صورتحال بھی انتہائی خراب ہے ۔ پیپلز پارٹی نے سیکڑوں ، ہزاروں گھوسٹ ملازمین تعلیمی اداروں میں ٹھونس دیے جو گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں اور اس بنیاد پر ان سے ووٹ وصول کیے جائیں گے ۔ سندھ کے بیشتر تعلیمی ادارے ویران پڑے ہوئے ہیں۔ کئی اسکولوں کے بارے میں رپورٹیں مع تصاویر ٹی وی چینلز پر آ چکی ہیں جہاں تعلیم اور تعلم کے بجائے گدھے لوٹ رہے ہیں ، مویشی باندھے ہوئے ہیں یا وڈیروں کے اوطاق بن گئے ہیں ۔ بلاول کا کہنا ہے کہ پاکستان مفلوج ہو چکا لیکن سندھ بھی تو پاکستان ہی کا حصہ ہے اس کی جائز حیثیت کی بحالی ہی پر توجہ دی ہوتی۔ جمہوریت مضبوط کرنے کا نعرہ لگایا گیا ہے لیکن کس قسم کی جمہوریت؟ جس میں صرف ایک فرد کا فرمان ہی حرف آخر ہو ۔ منشور میں طلبہ اور ٹریڈ یونین بحال کرنے کا وعدہ بھی ہے ۔ لیکن یہ کام گزشتہ 10 سال میں سندھ میں کیوں نہ ہو گیا یا تمام وعدے پورے ملک میں اقتدار ملنے تک موقوف رہیں گے؟ پیپلز پارٹی نے10 سال میں سندھ میں کام کیا ہوتا تو اس کے منشور پر اعتبار کیا جا سکتا تھا ۔کہنے کو تو ہر پارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ اقتدار میں آ کر یہ کچھ کریں گے ۔لیکن جو پارٹیاں اقتدار میں رہی ہیں ان کے دعوؤں کو ان کے عمل کے ترازو میں تولا جائے گا ۔ پیپلز پارٹی سندھ میں ، تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں اور مسلم لیگ ن پنجاب میں حکمران رہی ہے ۔ چنانچہ ان کی کارکردگی کی بنیاد ہی پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ یہ پارٹیاں کیا کریں گی ۔ صوبہ بلوچستان میں تو آر،جار لگی رہی ہے اس لیے وہاں کی مثال نہیں دی جا سکتی تاہم سینیٹ کے انتخابات میں جو ہوا وہ ایک مثال ضرور ہے ۔ بلاول نے اپنی والدہ کا وعدہ نبھانے کا اعلان کیا ہے لیکن اپنے والد کی 5 سالہ کارکردگی کا کوئی ذکر نہیں ۔