کچھ ’’ووٹ‘‘ پٹانگ باتیں

1001

مشہور ڈراما نگار خواجہ معین الدین مرحوم کا ڈراما ’’تعلیم بالغان‘‘ شاید آپ نے بھی دیکھا ہو۔ ہم نے بھی اُس سے اچھی خاصی تعلیمِ بالغہ حاصل کی ہے۔ خواجہ صاحب مرحوم نے اپنے اِس مشہور ومعروف و مقبول ڈرامے کے مرکزی کردار ’’ماسٹر جی‘‘ (محمود علی مرحوم) کے منہ سے کیا بلیغ فقرہ کہلوایا ہے: ’’زیرِ تعلیم میں اگر ووٹ کا ’’واؤ‘‘ لگا دیا جائے تو وہ ’’وزیرِ تعلیم‘‘ بن جاتا ہے‘‘۔
ہمارے یہاں تو ’’ووٹ کا واؤ‘‘ لگنے کے نتیجے میں ایسے ایسے لوگ بھی وزیر تعلیم رہ چکے ہیں جو کبھی زیر تعلیم رہے ہی نہیں۔ انھی میں سے ایک صاحب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں (ستم ظریفی دیکھیے کہ) سندھ کے وزیر تعلیم تھے۔ اُن کا نام ہمیں آج بھی یاد ہے۔ مگر لکھتے اِس لیے نہیں کہ اب وہ اپنی تمام تر لاعلمیوں کے ساتھ عالم الغیب والشّہادہ کے دربار میں پہنچ چکے ہیں۔ بہت مشہور واقعہ ہے کہ بحیثیت وزیر تعلیم وہ ایک تعلیمی اِدارے میں بلائے گئے۔ ادارے کی طرف سے پیش کیے جانے والے سپاس نامے میں پہلے تو اُن کی علم دوستی کا قصیدہ پڑھا گیا۔ پھر تعلیمی اِدارے کی تعلیمی خدمات کا رِجز پڑھا گیا۔ اس کے بعد اِدارے کی مالی زبوں حالی کا نوحہ پڑھا گیا۔ آخر میں ادارے کے لیے، پانی کھینچنے کی مشین، سائیکلو اسٹائل مشین اور فوٹو اسٹیٹ مشین سمیت متعدد مشینوں کی ضرورت کی مناجات پڑھی گئی۔ وزیر موصوف کے خطاب کی باری آئی تو اُنہوں نے تمام مطالبات کے جواب میں فرمایا:
’’وزارتِ تعلیم کا موجودہ بجٹ ختم ہوگیا ہے، اگلے بجٹ میں تمام مشینیں آپ کے ادارے کو فراہم کر دی جائیں گی‘‘۔
خطاب کرکے نیچے اُترے ہی تھے کہ طلبہ نے اُن کو گھیر لیا: ’’سرآٹوگراف پلیز ۔۔۔ سرآٹو گراف پلیز‘‘۔
سر نے اپنا سر پیٹ لیا۔ غصے میں طلبہ سے بولے:
’’سائیں! میں نے بتایا ہے نا کہ بجٹ ختم ہوگیا ہے، جب نیا بجٹ آئے گا تو آپ کو آٹوگراف مشین بھی فراہم کردی جائے گی‘‘۔
پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ایک وزیر تعلیم ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے قرآن مجید میں چالیس پاروں کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا، بلکہ جدید ذرائع ابلاغ کی اصطلاح میں ’’بریکنگ نیوز‘‘ دی تھی۔ اُن کے دماغ پر ’’ووٹ کا واؤ‘‘ شاید کچھ زیادہ ہی زور سے جالگا تھا۔ شدید قسم کی چوٹ کسی چیز پر بھی لگے، شئے مذکور کا توازن بگاڑ دیتی ہے۔ یہ وہی وزیر تعلیم تھے جن کے دور میں سائنس کی نصابی کتب میں سے قرآنی آیات کا اخراج کروا دیا گیا کہ اس کا سائنس سے کیا تعلق؟ اور اُردو زبان وادب کی نصابی کتب میں سے حمد و نعت خارج کر دینے کا حکم صادر کیا گیا، دلیل یہ تھی کہ: ’’آپ کو لینگویج سیکھنی ہے یا مذہبی شدت پسندی؟‘‘
سبحان اللہ حمد و نعت پڑھنا بھی شدت پسندی ہے۔ (شاید ہمارا سبحان اللہ کہنا بھی شدت پسندی ہی قرار پائے)۔ وزارتِ تعلیم کے ایک ماہر نصابیات نے (کہ اب مرحوم ہوچکے ہیں) جرأت کرکے یہ کہہ بیٹھنے کی گستاخی کردی:
’’حمد ونعت میں زبان کا بہترین استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے زبان و ادب کے طالب علموں کو حمد و نعت پڑھاتے ہیں‘‘۔
اِس پر اُن کو بہترین زبان میں حمد ونعت پڑھتے رہنے اور اپنی باقی عمر یادِ الٰہی میں بسر کرنے کی سہولت فراہم کردی گئی۔ جبراً ریٹائر کر دیا گیا۔
زیرِ تعلیم، وزیرِ تعلیم اور محرومِ تعلیم لوگوں کی باتیں تو بہت لمبی ہیں۔ ذرا کی ذراکچھ باتیں ’’ووٹ کے واؤ‘‘ کی بھی ہوجائیں۔ ووٹ کا پودا ہمارے ملکوں میں مغرب کی پنیری سے لاکر لگایا گیا۔ اس پنیری کا نام یوں تو ’’ڈیموکریسی‘‘ تھا مگر کسی نے اِس کا ترجمہ ’’جمہوریت‘‘ کر ڈالا۔ جب کہ ہماری فقہی (یعنی قانونی) اصطلاحات میں ’’جمہور کی رائے‘‘ کا مطلب ’’جمہور علماء کی رائے‘‘ ہوتا ہے۔ [’’علماء‘‘ کا مفہوم بھی اب فقط ’’علمائے مسلک‘‘ ہی تک محدود کرکے رکھ دیا گیا ہے، حالاں کہ ہر شعبۂ حیات کے ہر مضمون کا گہرا علم رکھنے والے اُس مضمون کے ’’علماء‘‘ ہی کہلاتے ہیں] ہماری تاریخ، ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن میں ’’جمہوریت‘‘ کے بالمقابل جو اصطلاح پائی جاتی ہے وہ ’’شورائیت‘‘ ہے۔ اِس کی بنیاد قرآن کی آیات ’’شَا وِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘ ۔۔۔ اور ۔۔۔ ’’وَ اَمْرُ ھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ‘‘ ۔۔۔ ہیں۔ ایک میں مشاورت کا حکم ہے اور دوسری میں کہا گیا ہے کہ اہلِ ایمان اپنے تمام معاملات کے فیصلے باہمی مشاورت سے کرتے ہیں۔ ہماری کئی جماعتوں کی مجلسِ فیصلہ ساز کو آج بھی ’’مجلس شوریٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ کے تمام بہترین ادوار میں انتہائی بہترین ’’مشاورتی نظام‘‘ پایا جاتا تھا۔ اُس وقت کسی نے ’’جمہوریت‘‘ کا نام بھی نہیں سُنا تھا۔ خود قائدِ اعظمؒ کی قیادت بھی برصغیر کے مسلمانوں کی ’’باہمی مشاورت‘‘ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ایک نعمت تھی اور اِس ’’مشاورت‘‘ کے مشیر اعلیٰ تھے: علامہ شیخ محمد اقبالؒ ۔
ہمارے یہاں سال میں دو مرتبہ پاکستان کے جو قومی دِن منائے جاتے ہیں کبھی کبھی ان ایّام پر تحریکِ پاکستان کے دنوں کی ایک متحرک تصویر پاکستان ٹیلی وژن کے ذخیرہ اوراق (Archives) سے نکال کر دکھائی جاتی ہے۔ ایک جلوس نعرے مارتا چلا آرہا ہے، پیش منظر میں ایک بینر ہے، جس پر درج ہے:
’’جمہوریت ایک فریب ہے‘‘۔
اِس فریب سے اِس اُمت کو (ہمارے ملک و ملت کے موجودہ تباہ کن نتائج برامد ہونے سے بہت پہلے) بہت سے حکماء نے آگاہ کردیا تھا، بشمول علامہ مرتضیٰ مطہری اور علامہ محمد اقبالؒ ۔ حکیم الامت کہتے ہیں:
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
اور تُو سمجھا کہ آزادی کی ہے نیلم پری
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
حذر از طرزِ جمہوری غلامے پختہ کارے شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آئد
آخری شعر میں علامہ صاحب ’’طرزِ جمہوری‘‘ سے پناہ مانگنے اور مسلمانوں کو آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے دیے ہوئے نظام کا ایک پختہ کار غلام بننے کی تلقین کرنے کے بعد ’’جمہوریت‘‘ کے خلاف یہ دلیل دیتے ہیں کہ دو سو گدھوں کے دماغ مل کر بھی ایک انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے۔
اِس بات سے انکار کرنا شاید مشکل ہو کہ ’’جمہوریت‘‘ سے ہمارے ملک، ہمارے معاشرے اور ہماری قوم میں محاذ آرائی، پارٹی بازی، جتھہ بندی، نسلی، لسانی، گروہی تعصبات اور قوم کے اندرونی اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔ فرقوں اور مسالک کی تقسیم نمایاں ہوئی ہے۔ ’’قومی اتحاد‘‘ کی جب بھی ضرورت پڑی ’’جمہوریت‘‘ نہیں ’’مشاورت‘‘ ہی کام آئی۔ یا تو کثیر جماعتی اتحاد بنایا گیا یا کُل جماعتی کانفرنس طلب کی گئی۔ اب ایک بار پھر ’’متحدہ مجلسِ عمل‘‘ کی صورت میں مسلک اور مکتب فکر سے ماورا ہو کر دینی قوتوں کے اتحادکا احیاء کیا گیا ہے۔ اب ایک بار پھر قومی شعور کی آزمائش ہے۔ قومی فیصلوں میں سے اہلِ علم (یعنی علماء) کو دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال باہر کردینے اور ہر اَن پڑھ، انگوٹھا چھاپ اور بدعنوان کے ماتھے پر’’ووٹ کا واؤ ‘‘ لگا دینے سے:
ایسے ویسے، کیسے کیسے ہوگئے
کیسے کیسے، ایسے ویسے ہوگئے
پائیوں کے آنے، آنوں کے رُپے
اور روپوں کے پیسے پیسے ہوگئے