لوڈشیڈنگ پاکستانی عوام کے لیے ایسا مسئلہ ہے جو مسلم لیگ (ن) کی حکومت 5 سال میں تمام تر اعلانات، بیانات اور دعوؤں کے باوجود حل نہ کرسکی۔ اصل میں اِن لوگوں کا زیادہ تر زور نمائشی کاموں پر رہا، یا یہ کہ ایسے کام جن سے سیاسی فائدہ زیادہ ہو ملک کو فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے، اس سے انہیں غرض نہیں۔ اس سلسلے میں علم معاشیات کی ایک اہم شاخ عوامی مالیات (Public Finance) کی تمام تفصیلات اور نظریات اس نقطے کے گرد گھومتے ہیں کہ عوام سے ٹیکسوں کی شکل میں جمع کیا عوام کے مفادات کے لیے اس طرح خرچ کیا جائے کہ اس سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے، مثلاً اگر حکومت کے پاس ایک کروڑ روپے کا فنڈ ہے اور اس کے سامنے چار مختلف منصوبے ہیں جن پر یہ رقم خرچ کی جاسکتی ہے تو اس رقم کو اس منصوبے پر خرچ کیا جائے جس کا وقتی فائدہ اور طویل المدتی اثرات زیادہ سے زیادہ ہوں کیوں کہ یہ عوام کا پیسا ہے اور حکومت کا کام اسے بہتر سے بہتر انداز میں خرچ کرنا ہے چناں چہ اس معاملے میں سیاسی مفادات کا کہیں گزر نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن پاکستان کی تمام چاہے وہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت ہر پروجیکٹ اور ہر منصوبے سے پہلے سیاسی مفاد، شہرت اور نمائش سامنے رہتی ہے۔ یہی معاملہ لوڈشیڈنگ کا ہے۔ پاکستان کے عوام، زراعت، صنعت اور تجارت بجلی کی کمی سے بُری طرح متاثر ہیں۔ اس سلسلے سابقہ وفاقی حکومت نے بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کئی پاور جنریشن پروجیکٹ لگانے کی کوشش کی۔ بھکی پاور پروجیکٹ، ساہیوال کول پاور پروجیکٹ، قائد اعظم سولر پارک، بن قاسم پاور پلانٹ۔ غرض اس طرح حکومت نے بجلی کی پیداوار تو 25 ہزار میگاواٹ تک پہنچادی، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جاتے جاتے پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ ہماری حکومت نے بجلی کی پیداوار ملک کی ضرورت سے زیادہ کردی ہے۔ دوسرے الفاظ میں بجلی کی پیداوار اس کی طلب سے آگے چلی گئی ہے۔
پاکستان میں بجلی کی ضرورت 23 ہزار میگاواٹ ہے جب کہ پیداواری صلاحیت 25 ہزار سے زیادہ ہے۔ چناں چہ ہم نے بجلی کی کمی کا مسئلہ ختم کردیا ہے اور ہم نے لوڈشیڈنگ ختم کردی ہے لیکن جس وقت وہ اعلان کررہے تھے اس وقت پورے ملک میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ جاری تھی اور تاحال جاری ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارا بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا نظام بڑا پرانا ہے۔ یہ ایک انتہائی بوسیدہ اور ناکارہ نظام ہے جس کی وجہ سے لائن لاسسز، فالٹس اور دوسرے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ حکومت نے یہ سوچا ہی نہیں تقسیم کا بوسیدہ نظام 25 ہزار میگاواٹ کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ پھر کھلے تاروں کا جو سلسلہ ہے اس میں کنڈہ سسٹم بڑا کامیاب ہے اور بجلی بڑے آرام سے چوری کی جاسکتی ہے۔ چناں چہ اندازے کے مطابق لائن لاسسز سے 30 فی صد اور چوری سے 15 فی صد بجلی ضائع ہوجاتی ہے یعنی 100 روپے کی بجلی بنا کر 55 روپے بجلی کی کمپنیوں کو ملتے ہیں۔ جو تمام پرائیویٹ کمپنیاں ہیں۔ اتنے بڑے نقصان کے بعد یہ کمپنیاں کیسے چلیں گی، اس کا نتیجہ گردشی قرضے 1000 ارب تک پہنچ گئے ہیں۔ چناں چہ ہر پاور کمپنی نیپرا میں بجلی کے نرخ میں اضافے کی درخواست تیار لیے بیٹھی ہوتی ہے۔ اس کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بجلی کے صارفین جو بل ادا کرتے ہیں ان پر بجلی کی چوری اور لائن لاسسز کا بوجھ بھی ڈال دیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کے نرخ اس خطے کے دوسرے ممالک مثلاً انڈیا، بنگلا دیش، سری لنکا، ملیشیا اور ویت نام سے زیادہ ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں فرنس آئل کا استعمال بھی کیا جاتا ہے جو باہر سے درآمد کیا جاتا ہے۔ نگراں حکومت نے آتے ہی روپے کی قدر میں تقریباً 4 فی صد کمی کردی ہے جس سے فرنس آئل کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ چناں چہ پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوگا۔ اس سلسلے میں نیپرا نے فرنس آئل کی قیمت میں اضافے کے باعث فی یونٹ سوا روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے جس کا اثر گھریلو صارفین، زراعت اور صنعت پر پڑے گا اور پاکستان کی معیشت جو بحرانوں کی زد میں ہے مزید ایک بحران کا شکار ہوجائے گی۔
بجلی کی چوری، لائن لاسسز اور فالٹس کو روکنے کے لیے وہ علاقے جہاں بجلی کی چوری زیادہ ہے پرائیویٹ ٹھیکیداروں کو اس کام کو سنبھالنے کا سوچا جارہا ہے جو اپنے مخبروں کے ذریعے بجلی کی چوری کا پتا لگائیں گے اور پھر پیسے وصول کریں گے وہ اپنے اختیارات کا کتنا استعمال صحیح کریں گے اور کتنا غلط کریں گے یہ وقت ہی بتائے گا مگر لوڈشیڈنگ میں فی الحال کمی کا امکان نہیں ہے۔