خان کا سجدہ اور الیکٹ ایبلز کا سہو

390

ابھی یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ عمران خان کا سجدہ انہیں بھاری پڑے گا یا ہزار سجدے سے نجات دلائے گا۔ لیکن پاکستان میں ایسے سجدوں اور تعظیمی رکوعات کی اب کوئی اہمیت نہیں کیوں کہ ہمارے حکمران جو اصل سجدہ کرتے ہیں وہ اب تک واشنگٹن کی چوکھٹ پر کرتے ہیں اس حوالے سے خان صاحب کے عزائم کیا ہیں‘ ان سجدوں کا تعلق عزائم سے نہیں ہوتا بلکہ اب تک تو وہی ہوتا آیا ہے کہ جو بھی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا اس کا سجدہ اول واشنگٹن ہوتا ہے اور سجدہ آخر بھی وہیں ہوتا ہے۔ آج کل پاکستانی قوم کو ایک نیا آستانہ دکھایا جارہا ہے جس میں مسجود خود بھی آدھا سجدہ یا رکوع کرتا ہوا نظر آتا ہے اور یہ آستانہ سی پیک کی شکل میں چین ہے۔ پوری حکومت، میڈیا ماہرین (نام نہاد) یا امریکی اور عالمی بینک کی زنجیر کے معاشیات کے ماہرین باہر سے آکر وزیر خزانہ بنے والے اور واپس لندن، پیرس اور واشنگٹن جا بیٹھنے والے۔ یہ سب قوم کو بتارہے ہیں کہ سی پیک گیم چینجر ہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں بتارہا کہ گیم چینجر کی قیمت کیا ہے‘ کون دے گا اور کب تک۔
ایک مرتبہ دبئی میں برج الخلیفہ دیکھنے کے لیے بچوں نے اصرار کیا۔ ہم نے باہر سے تو دیکھا تھا لوگ اسے بڑا زبردست تجربہ قرار دیتے تھے لیکن جب یہ پتا چلا کہ اس کھیل کے عوض ڈھائی سو درہم فی کس دینے ہیں یعنی چار لوگ جائیں تو ایک ہزار درہم، ہم نے منع کردیا۔ اس زبردست گیم سے محروم رہے۔ کیوں کہ یہ قیمت ہمیں اپنی جیب سے دینی تھی۔ بس مسئلہ یہی ہے کہ عمران کے سجدے کا فائدہ کس کو ہوگا اور نقصان کس کا۔ انہوں نے ایک طبقے کو خوش کرنے کے لیے یہ کام کیا، جو طبقہ ناراض ہوسکتا ہے وہ پہلے ہی ان کے مخالف کیمپ میں ہے، لہٰذا اس سجدے سے فی الحال کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آرہا۔ ہاں اگر یہ سجدہ انہیں بڑی درگاہوں تک لے گیا تو پھر خطرناک ہوں گے۔
خان صاحب کا معاملہ ذرا مختلف ہے، انہوں نے 2 عشروں تک سیاسی رہنماؤں کے مشوروں پر پارٹی چلائی اور زیادہ سے زیادہ دو ہی سیٹوں تک پہنچے لیکن پھر انہوں نے کہا کہ تم لوگ بیٹھو اور میری سنو اب میں فیصلے کروں گا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک نہیں کئی سجدے کیے اور ان کی اٹھان سب نے دیکھ لی، گزشتہ دنوں ہم اسلام آباد میں تھے مختلف سیاسی اور سرکاری حلقوں سے ملاقاتیں تھیں۔ ایک صاحب ایسے بھی تھے جن کا خلائی مخلوق سے تعلق کا دعویٰ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان صاحب کو ہم نے جہاں تک پہنچادیا اس سے آگے انہیں خود جانا ہوگا، اب الیکشن کا اعلان ہوگیا ہے جو جتنا زور مارے۔ تو یہ ہے ’’میں فیصلے کروں گا‘‘ کا مطلب۔۔۔ بہرحال یہاں تک پہنچنے میں خان صاحب کو جتنے سجدہ سہو کرنے پڑے ہوں گے ان کی تو فوٹو نہیں بنی البتہ کچھ خبریں آگئیں۔ اب انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سب بڑے نام پی ٹی آئی میں شامل ہیں، تاریخی فتح ہوگی۔ گویا ساری چوکھٹوں پر سجدے کرکے آنے والوں کو بڑا نام کہا جارہا ہے۔ ایسے لوگوں کو فصلی بٹیرے یا سیاسی بنجارے کہا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بات بابا فرید کے مزار پر حاضری کے موقع پر کہی جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے وہاں سجدہ یا سجدے کیے، اس کی وڈیو وائرل ہوچکی ہے۔ یہ لطیفہ بھی گردش کررہا ہے کہ کرسی کے لیے سجدے مزار پر نہیں جی ایچ کیو پر کیے جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں بھی کہا جاچکا کہ جتنے سجدے کرنے تھے وہاں کرچکے۔ پرفارمنس پر فیصلہ ہوگا، پورا الیکشن جیت کر دینے کا وقت چلا گیا۔ 1977ء کے بھٹو صاحب اور ٹھپا مافیا بھی اب دوہرائے نہیں جاسکتے۔ اب تو انجینئرنگ ہوتی ہے اور انجینئرنگ کا کام الیکٹ ایبلز کے ذریعے کردیا گیا ہے۔ ہر پارٹی کے بڑے بڑے اور ناکام لوگوں کو بنی گالا کی چوکھٹ پر سجدہ کرادیا گیا ہے۔ ایک دو نے سجدہ سہو بھی کرلیا ہے۔
فی الحال تو ایسی کھچڑی پکی ہوئی ہے کہ پتا ہی نہیں چل رہا کہ کون کس پارٹی کا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم جب دو حصوں میں تقسیم ہوتی تھی تو پھر بھی پتا چل جاتا تھا کہ کون حقیقی ہے اور کون حقوقی، لیکن اب تو ایم کیو ایم پاکستان، ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم بہادر آباد، ایم کیو ایم پی آئی بی، ایم کیو ایم حقیقی، غیر حقیقی اور ایم کیو ایم پی ایس پی۔ یہ سب ایم کیو ایم ہیں پہچان میں نہیں آتے کہ کون کس پارٹی میں ہے۔ سب سجدہ سہو کرچکے، اس لیے بھی پتا نہیں۔ عمران خان کے پاس بھی درجنوں لوگ سجدہ سہو کرکے آئے ہیں اس لیے ابھی تو نہیں پہچانے جارہے کہ آج کل کس پارٹی میں ہیں۔ ہوسکتا ہے اسمبلی میں آنے کے بعد رفتہ رفتہ پہچان ہوجائے۔ ویسے یہ لوگ پہچانے جانے سے بھی خوفزدہ ہیں جس روز پہچانے گئے اس روز برسوں کے یارانے چلے جائیں گے۔ خواہ اس میں 34 برس لگ جائیں۔ سجدہ تو عبادت ہے، نماز کا عمل ہے لیکن اسے سیاست کے حوالے سے استعمال کیا جارہا ہے حالاں کہ ایسا نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم اسے یوٹرن ہی کہیں گے، الیکٹ ایبلز بھی یوٹرن لے رہے ہیں اور خان صاحب بھی بار بار یوٹرن لے چکے۔ اب تو عدالتی فیصلوں میں بھی یوٹرن نظر آنے لگا ہے۔
خان صاحب شادی، ٹکٹ، الیکشن، پالیسی کسی بھی مسئلے پر کسی بھی وقت یوٹرن لے سکتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ خطرہ یہی ہے کہ آج جن الیکٹ ایبلز سے سجدے کرائے ہیں کل ان کو واپس نہ جانا پڑے یا انہیں بھیج نہ دیا جائے۔ انہیں پرانے کارکنوں کے احتجاج پر تکلیف بھی ہوئی ہے، اور نئے لوگوں کو ٹکٹ دینے پر پرانوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی؟؟ کئی لوگوں کو ٹکٹ دے کر چھین لیے گئے، حالاں کہ کہا تو یہ تھا کہ جو فیصلہ کرلیا وہ کرلیا، شور مچانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ عمران خان نے صفائی پیش کی ہے کہ میں نے سجدہ نہیں کیا بس عقیدت کے اظہار چوکھٹ کو بوسہ دیا تھا۔ تو کیا یہ بوسہ کھڑے کھڑے دیا تھا یا اس کے لیے چوکھٹ تک سر لے جانا پڑا۔ ہوائی بوسہ تو عقیدت کے تقاضے پورا نہیں کرتا۔ علما نے اسے شرک قرار دیا ہے لیکن ایک ٹی وی چینل کے کار پرداز نصرت جاوید کو صرف یہ شکایت ہے کہ بابا فرید کے مزار کا بہشتی دروازہ صرف 7 محرم کو کھلتا ہے۔ یہ عمران خان کے لیے کیوں کھولا گیا اور کیا یہ کھلا تضاد اور ایک پاکستان نہیں دو پاکستان کی علامت ہے کہ عام آدمی کے لیے ان مخصوص اور اشرافیہ جب چاہیں چلے جائیں۔ علما کرام نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ توبہ کریں اور تجدید ایمان کریں۔