پیٹرول بم اور ڈیموں کی تعمیر

281

پاکستانی قوم کو بتایاگیا تھا کہ ایک نگراں حکومت انتخابات کی نگرانی کے لیے آرہی ہے اس کا کام شفاف انتخابات کرنا ہوگا لیکن یہاں تو تنخواہوں میں اضافے، سڑکوں اور پلوں کے منصوبے، ریلوے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور ایک ماہ کے دوران دو مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیاگیا ہے اس مرتبہ تو 14 روپے فی لیٹر تک یہ اضافہ کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اوگرا کہاں ہے اور کیا وہ جو سمری بناکر دے وہ حکومت کے لیے تسلیم کرنا ضروری ہے۔ پیٹرولیم کی قیمت میں 7 روپے 54 پیسے اضافہ کرکے 99 روپے 50 پیسے قیمت مقرر کی گئی ہے جب کہ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں 14 روپے اضافہ ہوا ہے جو اب 119 روپے 31 پیسے فی لیٹر ملے گا اور غریبوں کے ایندھن مٹی کے تیل کی قیمت میں بھی 3 روپے 36 پیسے اضافہ کردیاگیا ہے۔ یہ نگراں تو 25 جولائی کے بعد کسی کو جواب دینے کے لیے میسر نہیں ہوں گے جو نئی حکومت آئے گی اس کے پاس یہ جواز ہوگا کہ ہمیں تو یہ اضافے ورثے میں ملے ہیں اور ممکن ہے وہ عالمی حالات کا عذر پیش کرکے ایک ماہ بعد ہی کچھ اور اضافہ کر ڈالے۔ آخر اسے بھی تو کاروبار مملکت چلانا ہوگا۔ بات صرف پیٹرولیم قیمت کی نہیں ہے قیمت میں اضافہ اور تعین پیسوں میں کیا جاتا ہے اور آج تک ان پیسوں کا حساب کتاب کہیں نہیں ہوتا۔ جو بھی پیٹرل ڈلواتا ہے وہ سو روپے، دو سو روپے، تین سو روپے یا پانچ سو اور ہزار روپے دیتا ہے۔ اگر کوئی دس لیٹر پیٹرول ڈلوائے تو اسے پیسے واپس نہیں ملتے صرف روپے ملتے ہیں اور پمپ والے روپے بھی اپنی طرف والے لیتے ہیں یعنی اگر 280 روپے 75 پیسے بنے ہیں تو وہ 281 روپے وصول کرلیتے ہیں پچاس پیسے بھی اسی طرح ہضم کرجاتے ہیں ان پیسوں کا حساب کون دے گا اور کون لے گا غالباً ایسا حساب دان تو اب تک پاکستان میں پیدا نہیں ہوا۔ لیکن شفاف انتخابات کرانے کی ذمے دار نگراں حکومت نے اوگرا کی سفارشات سے بھی بڑھ کر اضافہ کردیا۔ اس کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ شاید اخراجات کے لیے پیسوں کے حصول کا یہی ذریعہ ہے کہ عوام سے جتنی زیادہ رقم گھسیٹی جاسکتی ہو گھسیٹ لو۔ انہیں تو انتخاب بھی نہیں لڑنا کہ کوئی سوال کر بیٹھے نگراں حکومت تو پھر بھی حکومت ہے اب عدلیہ کی جانب سے آئین کے تحفظ اور تشریح سے آگے بڑھ کر اقدامات اور اعلانات شروع ہوئے ہیں۔ چند روز پیشتر بھی ڈیم بنانے کے عزائم کا اظہار کیاتھا اب تو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے خبر دی ہے کہ دو ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق ہوگیا ہے جلد خوشخبری دوں گا۔ اس کے بعد جو کچھ انہوں نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ڈیم نہیں بنیں گے۔ یعنی قرض معاف کرانے والوں سے 54 ارب وصول کرکے ڈیم تعمیر کریں گے۔ پاکستان میں دو کروڑ قرض لینے والا واپس نہ کرے تو عدلیہ سمیت سارا نظام وہ رقم نکلوانے میں ناکام رہتا ہے تو پھر یہ تو 54 ارب روپے ہیں گویا رقم آئے گی نہ ڈیم بنیں گے ویسے چیف جسٹس صاحب کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ پاکستان میں ڈیم نہ بننے کا سبب پیسہ نہیں ہے ڈیم نہ بننے کا سبب حکمرانوں کی غفلت ہے اور طاقت کے مراکز کی ترجیحات ہیں۔ اتفاق رائے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے جو کام کرنا ہوتا ہے اس کے لیے اتفاق رائے کی بات بھی نہیں کی جاتی بلکہ کام کر ڈالتے ہیں پھر سب کو پکڑ کر اتفاق رائے یا کثرت رائے بھی پیدا کرلیتے ہیں اور جو کام نہیں کرنا ہوتا اسے اتفاق رائے کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ بہر حال اگر چیف جسٹس پر امید بلکہ پر یقین ہیں تو یقیناًدو ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق ہوگیا ہوگا اور پوری قوم کی دعائیں چیف جسٹس کے ساتھ ہیں کہ وہ ڈیموں کی تعمیر کے کام میں اپنا حصہ ڈالیں۔ لیکن یہ سوال اب شدت سے سامنے آرہاہے کہ جس کا جو کام ہے وہ اس کے علاوہ بہت سے دوسرے کام بھی کررہاہے۔ پھر اداروں کے درمیان حدود اور ٹکراؤ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ چلیں اچھی امید پر کچھ دن اور انتظار میں نکال لیتے ہیں۔ چیف جسٹس کی جانب سے قرضے واپس لے کر ڈیم بنانے کے اعلان پر پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے خوب تبصرہ کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کو اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی اور کے پیسوں سے ڈیم بنائیں۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ کسی اور کے پیسے سے ڈیم نہ بنائے جائیں لیکن جناب خورشید شاہ بھول گئے کہ ان کی پارٹی کا ایک رہنما ٹی وی ٹاک شو میں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ چکا ہے کہ کرپشن ہمارا حق ہے۔ تو خورشید شاہ صاحب لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں کہ دوسرے کے پیسوں کو ہڑپ کرنا اور قرضے لے کر واپس نہ کرنے والے کون اور کیسے لوگ ہیں ان سے پیسے وصول کرنے پر خورشید شاہ صاحب کو کیوں اعتراض ہے۔ بینکوں نے دوسروں کے پیسے ہی تو ان لوگوں کو دیے تھے اگر عدالت عظمیٰ یہ پیسے وصول کرکے ڈیم بنارہی ہے تو کون سا غلط کام ہے۔ بینک تو قرضے لٹاکر رقم بھول بھی چکے تھے۔