ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ساتھ ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں رجب طیب اردوان ترکی کے دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔ ان کی کامیابی میں کسی الیکٹ ایبل کا کوئی کردار نہیں‘ نہ انہیں دیہی علاقوں میں ہمارے جیسے کسی ڈیرے کی حمایت میسر تھی‘ انہیں کامیابی کے لیے میٹرو بس کا بھی سہارا نہیں لینا پڑا‘ ترک میڈیا اور عالمی ذرائع ابلاغ تو ایسا تجزیہ دے رہے تھے کہ جس میں اردوان کا نام نہیں تھا‘ پھر آخر کیا بات تھی کہ انہیں کوئی شکست نہیں دے سکا‘ ہاں کچھ خاص بات تھی کہ اردوان کامیاب ہوئے‘ وہ تھے عوام‘ جن کے لیے اردوان نے دن رات کام کیا‘ وہ تھا ترک سیاسی نظام جس کے لیے اردوان نے جدوجہد کی‘ حالیہ انتخاب میں ان کا یہ انتخاب ترکی کے 12ویں صدر کے طور پر عمل میں آیا ہے جبکہ پارلیمانی انتخابات میں اُن کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) نے کامیابی حاصل کی ہے اُنہوں نے 53 فی صد اور دوسرے نمبر پر آنے والے اُمیدوار محرم انسے نے 31 فی صد ووٹ حاصل کیے۔ ٹرن آؤٹ 83 فی صد رہا۔ اردوان کی جماعت 350 سے زیادہ نشستیں جیت چکی ہے۔ اپوزیشن پارٹی ری پبلکن 147 نشستوں سے کچھ زیادہ حاصل کر سکی ہے۔
رجب طیب اردوان کا جمہوری عمل کے ذریعے ایک بار پھر صدر منتخب ہونا، پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے خوشی و مسرت کا باعث بنے گا۔ ترک قوم شاندار ماضی کی حامل ہے لیکن پہلی جنگ عظیم میں اپنے اتحادی جرمنی سمیت شکست کھائی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ترکی کا وجود اور اس کی بقا خطرے میں پڑ گئی ترک عوام نے ماضی کے ورثے کی حفاظت کے لیے، اتاترک اور ان کے جانشین عصمت انونو اور بعد میں آنے والی حکومتوں کے خلاف دلیرانہ مزاحمت جاری رکھی۔ اس جدوجہد میں ہزاروں ترکوں نے جانوں کی قربانی دی، لاکھوں کو پابند سلاسل کیا گیا اسی دور میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی قائم ہوئی اسی پارٹی کے ٹکٹ پر رجب طیب اردوان استنبول کے میئر منتخب ہوئے اپنی میئرشپ کے دوران استنبول کو بڑی ترقی دی یہیں سے انہیں انقلابی لیڈر کی شہرت ملی، انہیں پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ اسی حیثیت میں اُنہوں نے انتخابات جیت کر وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ترکی میں اگرچہ پارلیمنٹ موجود ہے لیکن تمام اختیارات صدر کے پاس ہی ہوتے ہیں۔ اُن کی محنت کے باعث، ترکی کا شمار آج دُنیا کی بڑی بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے فوج کے ایک دھڑے نے اچانک مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کردیا تاہم بغاوت کی اس سازش کو ترک عوام نے سڑکوں پر نکل کر ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ناکام بنا دیا توقع ہے کہ اُن کی قیادت میں ترقی کا سفر حسب سابق جاری رہے گا۔ ترقی یافتہ ترکی، عالم اسلام کے لیے باعث تقلید اور دُنیا بھر کے مسلمانوں کا سہارا ثابت ہو گا۔
آج کل پاکستان میں بھی انتخابات ہورہے ہیں‘ لیکن یہاں کوئی اردوان نہیں ہے‘ سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا شور مچا ہوا ہے‘ ٹکٹ کے لیے ٹانگیں کھینچی جارہی ہیں‘ کسی جماعت میں ایک جانب نواز شریف اور دوسری جانب چودھری نثار علی خان ہیں اور تحریک انصاف میں علیم خان اور شاہ محمود قریشی ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں‘ سیاسی جماعتوں کے دروازوں پر دھرنے دیے جارہے ہیں خواتین ہیں کہ مارکٹائی تک نوبت آچکی ہے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 جنرل نشستوں کے لیے جن 112 امیدوروں کا اعلان کیا ہے ان میں 75 امیدوار سبک دوش اسمبلی کے ارکان ہیں، 5 ایسے ہیں جو 2013 کی قومی اسمبلی کے ارکان کے بھائی اور بیٹے ہیں جب کہ 8 وہ ہیں جو ماضی قریب میں قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے 88 الیکٹ ایبلز اور 24 سیاسی کارکن میدان میں اتارے ہیں، مسلم لیگ ن کے الیکٹ ایبلز کی تعداد پی ٹی آئی کہ الیکٹ ایبلز سے بڑھ گئی ہے۔
دونوں سیاسی جماعتوں کے آمنے سامنے آنے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ملک میں دو جماعتی نظام ہی مستحکم ہو رہا ہے۔ 1988 میں ملک میں پہلے جماعتی الیکشن ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ 1988 اور 1990 میں آئی جے آئی میں شامل اور 1993 سے براہ راست پیپلز پارٹی کے مدمقابل رہی۔ دو مرتبہ 1988 اور 1993 میں بی بی بے نظیر نے میدان مارا اور دو مرتبہ 1990 اور 1997 میں نواز شریف نے 2008 میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی پیپلز پارٹی لاکھ دعوے کرے لیکن وہ سندھ کی سب سے بڑی پارٹی ضرور ہے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں زیادہ شور شرابہ دیکھنے کو ملا۔ دراصل پاکستان میں جس طرح جمہوریت آئیڈیل نہیں ہے اسی طرح آئیڈیل سیاسی جماعتیں بھی موجود نہیں ہیں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی بورڈ اپنی اپنی جگہ ہیں لیکن فیصلے حمزہ شہباز اور عبدالعلیم خان نے کیے ہیں۔ اردوان نے سارے فیصلے مشاورت کے ذریعے کیے اور پاکستان میں فیصلے پارٹی سربراہ نے کیے پارلیمانی بورڈ برائے نام تھا۔