بھٹو کے بت کدے میں بلاول پر پتھراؤ

415

گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ سارے بڑے بڑے نام میری پارٹی میں آگئے ہیں اب کامیابی یقینی ہے۔ لیکن اس کے اگلے دن ہی سے بڑے بڑے ناموں اور بڑی بڑی پارٹیوں کے ساتھ جو کچھ ہونے لگا ہے اس کے بعد بڑے بڑے نام والے گھبرا گئے ہیں خصوصاً پاکستان کی تاریخ میں دو بڑے واقعات سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں چند برس پیشتر تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ایک واقعہ تو کراچی کی میمن مسجد میں ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ پیش آیا وہ ایم کیو ایم کی سب سے بڑی شخصیت کے طور پر برسوں متحدہ کے نمائندے بنے رہے۔ اس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری میں ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے کی ریلی پر پتھراؤ ہوگیا۔ یہ بہت بڑے بت کے بت خانے میں ہوا۔ کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ لیاری میں پیپلزپارٹی کا پرچم نذر آتش کردیا جائے گا، بھٹو کے نواسے پر پتھراؤ کیا جائے گا لیکن ایسا ہوگیا ہے۔ فاروق ستار کے گھیراؤ کے بعد ایم کیو ایم کی مرکزی انتخابی مہم کے موقع پر جلسہ گاہ کے باہر خواتین پانی دو کچرا اٹھاؤ کے نعرے لگاتی ہوئی پلے کارڈز لیے کھڑی تھیں۔ اس سے قبل بہادر آباد میں ایم کیو ایم کی خاطر جان دینے والے گلستان جوہر کے کارکن کی بہن ایم کیو ایم کے رہنماؤں پر برس رہی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں نے یہ غلطیاں پہلے نہیں کی تھیں جن پر ان ہی کے لوگ گرفت کررہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔یہ سارے کام پیپلزپارٹی والے پہلے بھی کرتے رہے ہیں، متحدہ والوں نے نہ پانی دیا نہ کچرا اٹھایا بلکہ اپنے ہی کارکنوں سے ہمیشہ اپنوں کی لاشیں اٹھوائی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا، مکان کا منشور دیا اور عوام سے یہ تینوں چیزیں چھین لیں لیکن کبھی احتجاج نہیں ہوا۔ ہاں بھٹو کے خلاف اسی کراچی میں لیاقت آباد کے جلسے میں کسی نے جوتا لہرایا تھا لیکن بھٹو کمال مہارت سے یہ کہہ کر آگے نکل گیا کہ ہاں مجھے معلوم ہے جوتے بھی مہنگے ہوگئے ہیں۔ لیکن نواسے کو سیاست کہاں آتی ہے۔ کہنے لگا کہ یہ شرپسند تھے۔ صرف بلاول ہی نے نہیں شیری رحمان، مراد علی شاہ ، نبیل گبول سب نے احتجاج کرنے والوں کو شرپسند قرار دے دیا لیکن اگر لیاری میں شرپسندوں کی اتنی ہمت ہے کہ بلاول کی گاڑی پر پتھراؤ کریں۔ دوسرے ساتھیوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑدیں پرچم نذر آتش کردیں تو پھر پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہاہے۔ دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم کے دھڑوں کو بھی اپنے ماضی پر نظر ڈالنی ہوگی کہ انھوں نے کن وعدوں پر ووٹ لیے تھے اور شہر کے ساتھ کیا کر گئے اور اب بھی اس شہر کے لوگوں کے احتجاج کو شرپسندی سے تعبیر کرکے جان نہیں چھڑائی جاسکتی بلکہ جو پارٹیاں اور لیڈر طویل عرصے سے اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹتے رہے ہیں انہیں اب تک کسی نے جوابدہی کے لیے روکا نہیں تھا۔ اب اگر ان سے ان کے اقتدار کا حساب مانگا جارہاہے تو انہیں اسے سازش نہیں کہنا چاہیے۔ ہاں جس قسم کی سازشیں پاکستانی انتخابات میں ہوتی رہتی ہیں ان کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ شرپسند بھی ہوسکتے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے کسی بھی گروہ کے مرکز میں سیاسی تقریب کے اسٹیج پر خواتین کا احتجاج فاروق ستار جیسے بڑے رہنما کا گھیراؤ اور اگلے دن حیدر آباد میں بھی متحدہ کے رہنماؤں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، تقریر سے روک دیا گیا۔ پانی دو کچرا اٹھاؤ کے نعرے لگائے گئے تو یہ سب کے سب شرپسند نہیں ہوسکتے اور بھائی لوگوں سے یہ بھی کہنا ہے کہ آپ نے 35 سال شرپسندی کی آبیاری کی تو آج اسی کا سامنا ہے، شکوہ کیسا۔ عوام کراچی میں متحدہ سے بھی ناراض ہیں اور شہر کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے اور عدم دلچسپی کی وجہ سے خصوصاً شہر کے اہم محکمے حکومت سندھ کے قبضے میں کرنے کی وجہ سے پیپلزپارٹی سے بھی ناراض ہیں۔ اب عوام اتنے بھی بے وقوف اور سادہ نہیں کہ انہیں پتا ہی نہیں چلتا ہو کہ کراچی کو اضافی پانی کس نے دیا اور کے فور کی راہ میں رکاوٹ کون بنا ہوا ہے۔ متحدہ جتنی طاقت کراچی میں کسی پارٹی کے پاس کبھی نہیں رہی، اس کی طاقت کا مرکز کراچی نہیں بلکہ راولپنڈی، اسلام آباد اور لندن و امریکا رہا ہے۔ ایسے طاقتور گروہ سے لوگ اس شہر کے لیے بڑے بڑے منصوبے لانے اور اس کو حقیقی معنوں میں لندن و پیرس کا ہم پلہ بنانے کی توقع رکھتے تھے لیکن وعدے سن سن کر دھو نس دھاندلی کے ذریعے کامیابی کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر لوگ آخر تنگ آہی جاتے ہیں۔ سازشی عناصر یا شرپسند والی بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ لیاری میں عزیر جان بلوچ کے کافی لوگ ہیں اور پیپلزپارٹی کے ساتھ نبیل گبول بھی وہاں پہنچے تھے جو پہلے لڑھک کر ایم کیو ایم میں چلے گئے تھے پھر وہاں سے پی ٹی آئی کی طرف لڑھکے لیکن بے پیندے کا بل لوٹا تو وہیں پہنچا۔ لیاری کے لوگ نبیل سے بھی سخت نالاں ہیں۔ ہم تو اسے عوام کا احتجاج اور عوام کا مطالبہ ہی سمجھ رہے ہیں لیکن ایسے احتجاج کی ہمت افزائی نہیں ہونی چاہیے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور ایم کیوایم سمیت اقتدار کے مزے لینے والے سارے رہنماؤں اور پارٹیوں سے حساب لینے یا ان کا احتساب کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کو ووٹ نہ دیا جائے۔ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے انہیں مسترد کریں محض پتھراؤ اور گھیراؤ یا نعروں سے تو عوام کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہاں نعرے لگاکر کچھ پتھر مار کر دل ہلکا ہوجاتا ہے۔ اگر لوگ اپنے معاملات سدھارنے میں سنجیدہ ہیں تو جس طرح بھٹو کے بت کدے میں اس کے نواسے کو مسترد کیا ہے اسی طرح سارے بڑے بڑے بتوں کے خلاف اپنی رائے کا کلہاڑا چلائیں، کسی بت کو کھڑا نہ رہنے دیں۔ پتھراؤ اور احتجاج اگر ذرا زیادہ ہوگیا تو یہ مظلوم بھی بننے میں دیر نہیں لگائیں گے اور انتخابات کے مخالف عناصر کو انتخابات ٹالنے کا موقع ہاتھ آجاے گا۔ انتخابی دنگل میں نت نئے نعروں کے ساتھ بھی سیاسی رہنما سامنے آتے ہیں اور پرانے نعرے بھی دہرارہے ہیں بلاول بھٹو نے لیاری کے واقعے کے بعد پھر ایک روایتی قسم کا دعویٰ کر ڈالا جیسے لاڑکانہ کو ان کے نانا پیرس بنارہے تھے اسی طرح انہوں نے کہہ دیا چند پتھروں سے ڈرنے والا نہیں کل پھر لیاری آؤں گا سمندری پانی کو میٹھا بناکر لیاری کو دیں گے۔ لیکن اگلے دن وہ سندھ کے دورے پر چلے گئے۔ وہاں بھی ان کو لیاری جیسے ’’شرپسند‘‘ ملے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ کراچی و حیدر آباد کے 35 ہزار جوانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے آج مختلف ناموں کے دستانے پہنے معصوم بنے گھوم رہے ہیں۔ ان کے خلاف بھی صرف احتجاج کافی نہیں ہوگا اب اس شہر کے لوگوں کو باہر نکلنا ہوگا اور انہیں ہمیشہ کے لیے گھر بھیجنا ہوگا۔پیپلز پارٹی 1970ء سے لیاری کو اپنا گڑھ کہتی آرہی ہے۔ بی بی بے نظیر نے بھی یہاں سے انتخاب جیتا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے گڑھ کوگڑھا بنا دیا۔ لیاری میں مشتعل عوام یہی کہہ رہے تھے کہ پانی نہ بجلی اور نہ ہی ملازمتیں دی گئیں۔ گلی محلے کچرے سے اٹے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ گندا پانی بہہ رہا ہے۔ دوسری طرف لیاری کے کئی لوگ امن و امان کا سہرا پیپلز پارٹی کے سر نہیں بلکہ نواز شریف کے سر باندھ رہے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو کراچی سے قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست ملی تھی اور وہ لیاری کی تھی۔ لیکن لیاری کی نشست قانون شکن قرار دی جانے والی پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ سے معاہدہ ہونے کے بعد ملی جس سے ثابت ہوگیا کہ لیاری پیپلز پارٹی کا گڑھ نہیں بلکہ قانون شکن عناصر کا گڑھ بن گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کھلے عام پیپلز امن کمیٹی کو پیپلز پارٹی کے ’’بچے‘‘ کہا تھا، بالکل اسی طرح جیسے آصف علی زرداری کئی قتل کے الزام میں گرفتار راؤ انوار کو اپنا بہادر بچہ کہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کل کو عزیر بلوچ بھی کسی کا بھائی، بھتیجا کہلائے۔