دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی ترسیل پر نظر رکھنے والی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے گرے لسٹ میں شامل کرلیا ہے۔ اسٹرٹیجک نظام میں دس خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے زور دیا گیا ہے کہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے علاوہ عدالتی اور پراسیکیوشن کے نظام کو بہتر بنائے۔ پاکستانی وفد نے اگلے پندرہ ماہ میں اپنے نظام کی خامیاں دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پاکستان ایکشن پلان پر عمل درآمدکرنے میں ناکام رہا ہے۔ جن تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے ان میں حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت فاونڈیشن، داعش، القاعدہ، جیش محمد اور طالبان شامل ہیں۔ امریکا اور برطانیہ نے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی تھی جب کہ پاکستان کے روایتی حلیف ممالک ترکی چین اور سعودی عرب نے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالنے کی مزاحمت ترک کرکے اس تجویز کی حمایت کی۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادیں 1267 اور 1373 موجود ہیں۔ پاکستان کو ان قراردادوں پر عمل درآمد کا کہا گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے گزشتہ اجلاس ہی میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا مگر اس وقت حکومتی حلقوں نے اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے یہ تاثر دیا تھا کہ پاکستان کو محض واچ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ واچ لسٹ کا مطلب محض نگرانی اور نظر رکھنا تھا۔ اب گرے لسٹ کا مطلب اچھے یا برے کے درمیان ہے اور ظاہر ہے اسے اچھا بننے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔
دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ مشرق سے مغرب تک دہشت گردی مختلف حوالوں اور انداز سے جاری ہے۔ یہ بھی ایک دلخراش حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اچھے اور برے دہشت گردوں کی تمیز قائم ہے اور یہ لکیر روز بروز گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ایک ملک کا دہشت گرد دوسرے کے لیے ہیرو اور ایک ملک کا مطلوب شخص دوسرے کی بغل میں چھپا بیٹھا ہے۔ ان دوہرے میعارات اور تضادات نے عالمی سطح پر دہشت گردی کے نعرے کو ایک ڈھکوسلہ بنا کر رکھ چھوڑا ہے۔ پاکستان میں انصاف اور قانون کو مطلوب بے شمار افراد ایسے ہیں جن پر گینگ چلانے، نشانہ وار ہدف بنا کر اور اجتماعی بلوے کروا کے قتل کرنے، غیر ممالک سے سرمایہ لینے، اغوا، بھتا خوری کے سنگین مقدمات قائم ہیں مگر یہ لوگ امریکا اور یورپ کے عشرت کدوں میں محوِ استراحت ہیں۔ ان کی موجودگی اور سرگرمیوں سے پاکستان کو پریشانی لاحق ہوتی ہے اور پاکستان کو پریشاں حال دیکھنا بہت سے بااثر ملکوں کی خواہش رہی ہے اس لیے پاکستانی قانون کو مطلوب افراد پر ہاتھ نہیں پڑتا۔ ٹی ٹی پی کا لیڈر مولوی فضل اللہ افغانستان میں عالمی قوتوں کی چھتری تلے مقیم رہا۔ اس دوران یہ شخص پاکستان میں خوفناک حملوں کی منصوبہ بندی میں شریک رہا مگر مجال ہے کہ کبھی ڈرون طیارے نے آنکھ اُٹھا کر بھی فضل اللہ کی کمیں گاہ کی طرف دیکھا ہو مگر جب فضل اللہ کی موت کو ایک لیوریج کے طور پر استعمال کرنے اور پاکستان سے جوابی اقدامات کی ضرورت محسوس ہوئی تو امریکی ڈرون نے اسے ہدف بنالیا۔ جو اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ دہشت گردی کے نام پر ایک بساطِ شطرنج بچھی ہوئی جہاں ہر ایک کے اپنے مہرے ہیں اور ضرورتوں کے تحت ان مہروں کا استعمال جا ری ہے۔
ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ کو جرم قرار دے رہی ہے مگر پاکستان کے لاتعداد منی لانڈرر مغرب اور یورپ میں عالیشان جائدادیں اور محلات بنا ئے ہوئے ہیں اور یہ جانتے بوجھتے ہوئے مغربی ملکوں کے قوانین ان کے خلاف حرکت میں نہیں آتے۔ پاکستان نے دہشت گردی کا سامنا کیا ہے اور ابھی بھی اس ملک کے سیکورٹی ادارے حالت جنگ میں ہیں۔ عوام نے سکھ کا سانس تو لیا ہے مگر دہشت گردی کے بادل پوری طرح چھٹنے نہیں پائے۔ اس لیے دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان کی اپنی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کی یہی وجہ اہم نہیں کہ انہیں رقوم کی ترسیل میں آسانی ہوتی ہے بلکہ دنیا میں اکثر دہشت گرد اپنی مالی ضرورتیں مقامی معاشرے سے پوری کرتے ہیں اس کے لیے بینکوں کے نظام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بھتے، اغوا برائے تاوان، منشیات اور ڈکیتیوں سے حاصل کی جانے والی رقم بینکوں میں جمع نہیں کرائی جاتی۔ بہرحال ’’دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ کے مصداق بینکنگ سسٹم کو کڑی پابندیوں کا شکار کرنا ایک رسم وریت کی تکمیل ہو سکتی ہے مگر اس سے دہشت گردی سے وابستہ نظام پر حقیقی چوٹ پڑنے کا امکان زیادہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کی کلائی مروڑنا مغرب کی ضرورت ہے اس واچ لسٹ، گرے لسٹ، بلیک لسٹ کی یہ تلوار لٹکائے رکھنا ان طاقتوں کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کو اپنی ضرورت کے تحت دہشت گردی کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اس کے لیے کسی بیرونی ملک یا تنظیم کی فرمائش اور مطالبے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔