امریکی تضادات

243

امریکیوں کا معاملہ بھی عجب ہے۔ کبھی تو ساری دنیا کے بلا شرکت غیرے حکمران بلکہ ٹھیکیدار بن جاتے ہیں ہر کام طاقت کے بل پر کرنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن جب ان کی پٹائی ہوتی ہے اور کس بل نکال دیے جاتے ہیں تو طاقت کے بل پر کام کرنے کے بجائے مذاکرات کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ کسی صورت شکست تسلیم نہیں کرتے جھوٹ کے سہارے اپنی قوم کو بے وقوف بنائے جا رہے ہیں۔ چند روز قبل پاکستان پر الزامات لگانے والے امریکا نے اب کہا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں اہداف حاصل نہیں کرسکتے۔ 17 برس سے جاری بحران میں طالبان کا مذاکرات میں پیش رفت نہ کرنا قابل قبول نہیں۔ عجیب بات ہے، جب طالبان مذاکرات کی پیشکش کرتے ہیں تو امریکا کہتا ہے کہ مذاکرات نہیں ہوسکتے، حملے کیے جائیں گے۔ جب حملوں سے معاملہ حل نہیں ہوتا تو چاہتے ہیں مذاکرات ہو جائیں۔ دو عشروں سے امریکا نے افغانستان میں سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔ وہ کون سے اہداف ہیں جو حاصل ہی نہیں ہو رہے۔ یہ بات امریکی عوام کو تو سمجھ میں نہیں آرہی۔۔۔ لیکن پاکستانی قوم اور افغان حکمران تو سمجھ جائیں کہ امریکی اہداف اس خطے کو مسلسل بے سکون رکھنا ہے۔ اسی لیے بمباری ہے، اسی لیے امن مشن ہیں اسی کے لیے ان کی ساری جدوجہد ہے۔ یہ چاہتے کیا ہیں۔ یہ بات خود امریکیوں کو بھی نہیں معلوم ،کیونکہ ان کی دولت اور تیسری دنیا کو جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال کرنے والے اسلحے کے تاجر دنیامیں صرف جنگ پھیلانا چاہتے ہیں ۔ اگر امن قائم ہو گیا تو ان کا دھندا ختم ہو جائے گا ۔لہٰذا اہداف کبھی حاصل نہیں ہوں گے ۔