اقتدار میں آکر زرعی مسائل کا حل پہلی ترجیح ہوگی،انجینئرعظیم رندھاوا

227

فیصل آباد(وقائع نگار خصوصی) اقتدار میں آکر زرعی مسائل کا حل پہلی ترجیح ہوگی۔زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ ان خیالات کااظہارمتحدہ مجلس عمل پی پی109کے امیدوار انجینئرعظیم رندھاوانے کسان بورڈ کی جانب سے ان کی حمایت کے اعلان کے موقع پر کسان بورڈ کے ذمے داران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر ضلعی صدرمیاں ریحان الحق ایڈووکیٹ،نائب صدر رانا محمد خان،چودھری یوسف منج ،حاجی عبدالغنی، حاجی اعظم جٹ،عبدالجبارچٹھہ،رانامحمدیوسف اور دیگر بھی موجود تھے ۔ عظیم رندھاوانے کہاکہ ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں سے اربوں روپے کی فصلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں، جانی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ فوری طور پر بڑے آبی ذخائر تعمیر کرنے کے حوالے سے اقدامات اٹھائیں گے جس سے توانائی کی ملکی ضروریات بھی پوری ہوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچا جاسکے گا اور انتہائی قیمتی پانی ضائع ہونے سے بھی بچایا جاسکے گا۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ زرعی مداخل کے ریٹ کم کیے جائیں گے تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ممکن ہو سکے اور اجناس کے ریٹ عام آدمی کی قوت خرید میں آسکیں۔بھارتی آبی جارحیت اور اس کے نتیجے میں پاکستانی زراعت کو پہنچنے والے نقصانات اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا،زرعی مقاصد کے لیے بجلی پر سبسڈی دی جائے گی، شمسی توانائی کے ذریعے آب پاشی کے نظام کو متعارف کروانے پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے کسانوں کو بلاسود قرضوں کی سہولت دی جائے گی۔موسمی حالات کی سختیوں سے بچنے کے لیے تمام گندم خریداری مراکز اور شوگر ملوں کے باہر کاشت کاروں کے قیام کے لیے شیڈ تعمیر کروائے جائیں گے جن میں ابتدائی طبی سہولیات کا ہونا لازمی قرار دیا جائے گا۔مارکیٹ کمیٹیوں میں سیاسی تقرریاں ختم کی جائیں گی اور کسانوں کے حقیقی نمائندوں کا تقرر عمل میں لایا جائے۔شوگر ملیں کٹوتیوں کے نام پر کاشت کاروں کا جو استحصال کر رہی ہیں اسے بند کیا جائے گا۔ سی پی آر میں دی گئی مدت کے دوران ادائیگیوں کو یقینی بنایا جائے گا۔ سی پی آر کو چیک کا درجہ دیا جائے گا یا کاشت کاروں کو ادائیگی بذریعہ چیک کروائی جائے گی۔ زرعی مداخل کی قیمتوں اور فراہمی کے تعین کیلیے تمام اسٹیک ہولڈرز بالخصوص کسانوں کی مشاورت کے ذریعے ایسا نظام وضع کیا جائے گاجس سے بے جا استحصال اور مشکلات سے نجات پائی جاسکے۔زرعی مداخل کی قیمتوں، بجلی، ڈیزل کے نرخوں میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے امدادی قیمتوں کا اعلان کیا جائے گا۔