کے پی ٹی میں جعلی بھرتیاں 

147

کراچی میں نیب نے بد عنوانی اور جعلی بھرتیوں کے الزام میں کراچی پورٹ ٹرسٹ( کے پی ٹی ) کے سابق چیئر مین جاوید حنیف کو گرفتار کر لیا ہے ۔ جاوید حنیف متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے صوبائی اسمبلی کا امید وار بھی ہے ۔ اگر پکڑا نہ جاتا تو شاید سندھ اسمبلی میں پہنچ جاتا ۔ ایم کیو ایم ایسے ہی لوگوں کوآگے لاتی رہی ہے جن کار یکارڈ مجرمانہ ہے لیکن انہوں نے ایم کیو ایم کو شہر پر مسلط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان کی خدمات کا صلہ دینا ضروری ہوتا ہے ۔ سب سے بڑا مجرمانہ کردار تو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کا ہے کبھی جن کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا ۔ جاوید حنیف پر الزام ہے کہ اس نے کے پی ٹی میں 940 افراد بھرتی کیے جس کے لیے وزیر اعظم ہاؤس سے جعلی حکم نامے تیار کیے گئے ۔ غیر قانونی بھرتیوں سے قومی خزانے کو2 ارب 80 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ۔ ظاہر ہے کہ جاوید حنیف نے جو کچھ کمایا اس کا بڑا حصہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو بھی جاتا ہو گا ۔ اہم سوال یہ ہے کہ ایسے بد عنوان شخص کو کے پی ٹی کا چیئر مین بننے کا موقع کس نے فراہم کیا اور اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا ۔ اسے ایم کیو ایم کا امید وار بنانے والوں کو بھی اس کے کرتوتوں کی خوب خبر ہو گی اورشاید اسی لیے اسے ٹکٹ دیا گیا ۔ جاوید حنیف کو کے پی ٹی کے چیئر مین کے عہدے تک پہنچانے میں ایم کیو ایم کے سابق وزیر بابر غوری کا ہاتھ یقیناً ہو گا اسی لیے وہ بابر غوری کا فرنٹ مین کہلاتا ہے ۔ خود بابر غوری متعدد الزامات کی زد میں ہیں اور وہ بھی ملک سے باہرجا بیٹھے ہیں ۔ 12مئی 2007ء کو کراچی کی سڑکیں بند کر کے قتل عام کرنے والوں کو سہولت فراہم کرنے میں بابر غوری کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے ایم کیو ایم کے وزیرکی حیثیت سے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کے پی ٹی کے کنٹینرز فراہم کیے تھے جو خاص طور پر عدالت عالیہ سندھ کی ناکہ بندی میں استعمال ہوئے جہاں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو آنا تھا ۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم اس بات کا بڑا ڈھول پیٹتی ہے کہ وہ متوسط درجے کے لوگوں کو آگے لے کر آئی ۔ ان میں ایک بابر غوری بھی تھے جو ناظم آباد کے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں اسسٹنٹ منیجر تھے ۔ لیکن ایم کیو ایم میں آ کر شہر میں ان کی املاک اور جائداد کا کوئی شمار ہی نہیں رہا ۔ ایسے ہی اور بہت سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔ خود الطاف حسین بھی اس کی مثال ہیں جو کوئی کام نہ کرنے کے باوجود لندن میں عیش کر رہے ہیں اور لندن پولیس نے ان کے گھر اور دفتر پر چھاپا مار کر بڑی رقوم برآمد کیں ۔منی لانڈرنگ پر برطانیہ کے قوانین بہت سخت ہیں لیکن الطاف حسین سے تعرض نہیں کیا گیا ۔ جاوید حنیف کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دینے والے اس کی حقیقت سے خوب واقف ہوں گے کہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ نیب کے مطابق جاوید حنیف نے جن افراد کو کے پی ٹی میں بھرتی کیا ان کی بڑی تعداد دہشت گردی میں ملوث تھی ۔ ایم کیو ایم نے ایسے ہی لوگوں کو ان اداروں میں پناہ دی جو اس کے قبضے میں تھے ۔ جاوید حنیف کے علاوہ کے پی ٹی گوادر کا ڈائرکٹر محمدسپرا بھی اسلام آباد سے پکڑا گیا۔ جاویدحنیف کی گرفتاری پر ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول نے احتجاج کیا ہے کہ نوکریاں دینا جاوید حنیف کا جرم بنا دیا گیا، وہ ہماراامیدوارہی نہیں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا رکن بھی ہے ۔ خالد مقبول اپنے دیگر ساتھیوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں کہ کسی جرم میں تو ملوث نہیں ۔ خالد مقبول کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی 10 سال کی حکمرانی میں یہی کچھ کیا ہے ، جعلی بھرتیاں کروائیں اور نوکریاں بیچیں۔ اس طرح کئی ادارے تباہ کر دیے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ در اصل اپنے اپنے نا اہل لوگوں کو بھرتی کرانے کی دوڑ لگی ہوئی تھی جسے نوکریاں فراہم کرنے کا نام دیا گیا اور ادارے تباہ ہو گئے ۔