تحریک انصاف پاکستان کے چیئرمین عمران خان کہتے ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ وہ کم ازکم ان انتخابات میں تو کامیاب ہو ہی جائیں کیوں کہ عمران کو ’’دو اہلیہ‘‘ کے ’’انتخابات‘‘ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تیسری اہلیہ کے بارے کہا جارہا ہے کہ ان کی کامیابی کا تعلق بھی عمران کے وزیراعظم بننے سے مشروط ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ عمران آئندہ عام انتخابات کے بعد وزیراعظم بنتے ہیں یا نہیں۔
کسی کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی غیر مناسب کہلاتی ہے۔ مگر ہم اپنے کپتان، لاڈلے کی بات کررہے ہیں ’’کسی کی‘‘ کر بھی نہیں رہے۔ کہتے ہیں لیڈر پبلک کا ہوتا ہے بلکہ ’’پبلک پراپرٹی‘‘ ہوتا ہے۔ گو کہ عمران ہر عام اور ’’خاص‘‘ کے چہیتے بتائے جارہے ہیں اس لیے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ بہت سے دعویداروں کی واحد ’’جائداد‘‘ ہے۔ چوں کہ جائداد کی ملکیت تبدیل ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہے اس لیے یہ جائداد ’’پبلک پراپرٹی‘‘ بننے سے پہلے جمائما کی تھی اور کسی کی بھی نہیں تھی حالاں کہ مغرب میں عورتیں اپنی ملکیت میں موجود ’’جائداد زن‘‘ کے باہر کی ’’پراپرٹی‘‘ میں سے بھی جس کو چاہے اپنا کہہ سکتیں ہیں۔ انہیں ان کے معاشرے نے اس بات کا بھی خصوصی حق دیا ہے۔
چوں کہ پراپرٹی کی ملکیت تبدیل ہوتی رہی اس لیے عمران خان ریحام خان کی وقتی ملکیت کے مالکانہ حقوق سے باہر آنے کے بعد اور پہلے کئی اور ناموں سے بھی منسوب رہے۔ بلکہ کیے گئے حالاں کہ دستاویزات میں وہ صرف جمائما اور ریحام کے بنے یہ اور بات ہے کہ وہ ان دنوں پبلک لیڈر کے ساتھ پبلک پراپرٹی بھی ہیں اور تیسری بیوی پنکی کے دوسرے شوہر بھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ عمران خان جیسی باہمت شخصیات ہی کو آئندہ کے وزیراعظم کا موقع ملنا چاہیے جو تین بیویوں کے کم ازکم نصف درجن بچوں کا بوجھ سنبھالنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ اس کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ پنکی سے شادی کے بعد عمران لبرل کم اور مذہب پرست زیادہ لگ رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ پنکی ان کی تربیت بھی کررہی ہیں۔ اب تک وہ مزار کو چومنا اور مزار پر سجدے کرنا سیکھ چکے ہیں۔ یہ عمران کی اہلیہ ہی بتا سکتی ہیں کہ وہ ہمارے کپتان کو کس مذہب کی تربیت دے رہی ہیں۔ کم ازکم اسلام میں تو مزاروں پر سجدے کرنا انہیں چومنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عمران نے بیوی کی محبت میں مزاروں کو چومنے کا فیصلہ کیا ہو۔ بات اگر چومنے تک ہو تو ہم یہ چاہیں گے کہ یہ سلسلہ مزید آگے نہ بڑھے بلکہ بہتر ہے کہ یہ سلسلہ مزار سے دور ہوجائے۔
عمران خان کی بات ہو تو ان کے پرانے مخالف اور موجودہ سیاسی ساتھی شیخ رشید احمد کا ذکر نہ کیا جائے یہ مناسب نہیں۔ شیخ صاحب اور عمران خان کی دوستی پر بھی حیرت ہوتی ہے۔ عمران خان کو سیاست کے ساتھ شادیاں رچانے کا بھی شوق ہے جب کہ شیخ صاحب نے شادیاں تو کجا ایک نکاح بھی نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاست میں جو بھی کامیابی حاصل کی اس کی وجہ یہی ہے کہ میں شادی کے بندھن سے آزاد رہا۔ شیخ رشید نے شادی نہیں مگر ان کی حویلی ’’لال‘‘ ہے۔ لیڈر اگر پبلک پراپرٹی ہوتا ہے تو شیخ رشید بھی لال حویلی سمیت عوامی جائداد ہوئے۔ اطلاع ہے کہ عمران خان کی تیسری اہلیہ نے شیخ رشید کو بھی جلد شادی کرنے کا مشورہ دیا تاکہ ان کی قسمت بھی پھوٹ سکے۔ سنا ہے کہ شیخ رشید نے پنکی بھابھی کے مشورے پر عام انتخابات کے بعد شادی کی غرض سے کسی لڑکی کا انتخاب کریں گے اس مقصد کے لیے وہ ترجیحی بنیاد پر ان کی طرف نظر گھمائیں گے جو ان سے شادی کی امید لگائے بیٹھی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ عام انتخابات بھی ہوجائے اور عمران کا گھر بسا رہے جب کہ شیخ رشید کی حویلی میں ان کی دلہن بھی آجائے۔