مترجم متوجہ ہوں

357
تھامس بارفیلڈ کی کتاب (افغانستان ایک ثقافتی اور سیاسی تاریخ) کا مطالعہ کر چکا ہوں۔ کتاب گرامیِ قدر دُر محمد کاسی نے اُردو کے قالب میں ڈالی ہے۔ جس کا ترجمہ ’’افغانستان، تاریخ اور تہذیب کے آئینے میں‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے اور سیلز اینڈ سروسز کوئٹہ نے چھاپی ہے۔ نیت تنقید یا اصلاح کی نہیں ہے۔ نہ ہی کسی کو آزردہ کرنا پسند کرتا ہوں۔ دُر محمد کاسی اچھے لکھاری اور مترجم ہیں۔ ان کا ادبی و تخلیقی کام قابل تعریف ہے۔ انگریزی سے اُردو میں ترجمے کا ہنر جانتے ہیں۔ ترجمہ آسان و رواں پیرائے میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مترجم نے مذکورہ کتاب کے ترجمے میں اپنی خواہش کو چند مقامات میں داخل کیا ہے جو تجاوز کے زمرے میں آتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ترجمہ ایک مشکل فن ہے، جو ریاضت و مہارت کے بغیر ممکن نہیں۔ مترجم پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ترجمے کی افادیت و اہمیت برقرار رکھے تاکہ اصل روح مجروح نہ ہو۔ بہر طور یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں قاری کا ترجمہ پر سے اعتبار نہ اُٹھ جائے، کیوں کہ کتاب حوالہ ہوتی ہے۔ ترجمے میں کمی و زیادتی نہ صرف مصنف سے نا انصافی ہے بلکہ ایسا قارئین خاص کر طلبہ و محققین کو گمراہ کرنے کے مترادف بھی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ مصنف تھامس بار فیلڈ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 70 میں لکھتے ہیں کہ:

“The Pashtuns could therefore rightfully boast that their mountain fastnesses had never been conquered, but that was because successive empires chose to bypass them or else imposed only symbolic elements of sovereignty. To extend their claim of autonomy to all of today’s Afghanistan involved more than a little exaggeration.
Even among the Pashtuns, those who inhabited the irrigated plains
around Qandahar, Peshawar or Herat experienced foreign rule on a regular basis because their territories constituted the productive hearts of their regions that no ruler would willingly ignore.”

مترجم صفحہ نمبر 86 میں لکھتے ہیں کہ: ’’پشتون یہ بر حق دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اُن کے پہاڑی خطوں کو کبھی فتح نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد بھی آنے والے حکمرانوں نے یہاں برائے نام حکمرانی کا دعویٰ کیے رکھا ہے۔ البتہ پشتونوں میں وہ آبادیاں جو ذرخیز زمینوں پر آباد تھیں جیسے قندھار، کوئٹہ، پشاور اور ہرات کے علاقے مسلسل غیر ملکی حملہ آوروں کی زد اور قبضے میں رہے۔ کیوں کہ یہ علاقے زبردست پیداواری صلاحیت رکھتے تھے جنہیں کوئی حکمران نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔‘‘ یعنی یہاں مترجم نے کوئٹہ کا اضافہ کر دیا ہے۔ جب کہ مصنف نے کوئٹہ تحریر نہیں کیا ہے۔ فاضل مصنف اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 99 میں لکھتے ہیں کہ:

“By contrast, the Durrani Empires’ Pashtun core (Qandahar, Kabul and Peshawar) was much poorer and more sparsely populated than its richer margins (Sindh, Punjab, Kashmir, Khorasan, and Turkistan).

مترجم لکھتے ہیں کہ: ’’اس کے برعکس دُرانیوں کی سلطنت کے اہم پشتون شہر قندھار، کابل، پشاور اور کوئٹہ بہت کم آبادی والے تھے جب کہ اس کے دور دراز کے علاقے سندھ، پنجاب، کشمیر، خراسان اور ترکستان زیادہ امیر اور پیداواری شہر تھے۔‘‘ کاسی صاحب نے یہاں پھر کوئٹہ کا اضافہ کر دیا۔ تھامس بار فیلڈ صفحہ نمبر 25میں دُرانی قبائل کی شاخوں کے باب میں رقم طراز ہیں کہ:

“The most prominent Pashtun tribes in Peshawar, such as the Yusefzai, Shinwari and Mohmand also claim descent thorugh this line.”

چناں چہ دُر محمد کاسی صفحہ نمبر 39میں ترجمہ کرتے ہیں کہ: ’’پشاور اور خیبر پختون خوا کا سب سے مشہور قبیلہ یوسفزئی، شینواری کاسی اور مہمند بھی اسی شاخ میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘‘۔ چناں چہ مترجم نے اپنی منشاو خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہوئے شینواری کے ساتھ کاسی کو بھی جوڑ دیا ہے۔ حالاں کہ مصنف نے شینواری کے ساتھ قبیلہ کاسی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ مگر مترجم ترجمہ کی اصل روح مجروح کرنے سے خود کو روک نہ سکے ہیں۔ کاسی خرشبون یعنی خیرالدین کا بیٹا ہے، شجرہ نویسوں نے جیسے خورشیدِ جہاں، تاریخ خانجہانی و مخزنِ افغانی اسی طرح ’’پشتانہ د تاریخ پہ رنڑا کی‘‘ سمیت دیگر کتابوں میں بھی کاسی قبیلے کو شینواری کا باپ لکھا گیا ہے۔ بلکہ مترجم نے اپنی کتاب ’’کوئٹہ اور کاسی میں بھی ایسا ہی تحریر کیا ہے۔ مزید برآں شینواری قبائل خیبر پختون خوا، فاٹا اور افغانستان کے مشرقی علاقوں میں آباد ہیں۔ جب کہ کاسی قبائل کا مسکن کوئٹہ اور مضافات ہے۔ خیر جو بھی ہو، یہاں شینواری کے ساتھ کاسی کو جوڑنا نامناسب ہے اور خلاف ربط و محل بھی ہے۔ فاضل مصنف نے خیبر پختون خوا کے بجائے فقط ’’پشاور‘‘ تحریر کیا ہے اور خیبر پختون خوا کا اضافہ بھی مترجم نے کر ڈالا ہے۔ مصنف تھامس بار فیلڈ نے اپنی کتاب میں پشتونوں کے قبائل غلزئیوں کو غلزئی ہی لکھا ہے۔ اور دُرمحمد کاسی صاحب نے ترجمہ میں اول تا آخر خلجی ہی لکھا ہے۔ لفظ خلجی ضرور مستعمل ہو گا، مگر اصولِ ترجمہ کا تقاضا یہ تھا کہ جو مصنف ’’تھامس بار فیلڈ‘‘ نے اپنی انگریزی کتاب میں لکھا ہے، ترجمہ میں بھی غلزئی لکھا جاتا۔ گویا حذف و اضافہ ترجمہ کے اصول و مبادیات کے خلاف ہے۔ چناں چہ یہ چند معروضات ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر مترجم کے حضور بہ احترام و اختصار کے پیش کرنا ضروری سمجھا۔