لاہور ڈوب گیا

225

اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ منگل کو لاہور میں ریکارڈ توڑ بارش ہوئی جس نے پنجاب کے دارالحکومت کا حلیہ بگاڑ دیا۔ لیکن اس بارش سے پنجاب پر 10برس سے حکمرانی کرنے والوں کے انتظامات کا پول بھی کھل گیا اور سارا میک اپ دھل گیا۔ یہ وہی لاہور ہے جس کے بارے میں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا دعویٰ تھا کہ اسے پیرس بنا دیا گیا ہے اور اب کراچی کو پیرس بنائیں گے۔ نجانے ہمارے حکمرانوں کو پیرس سے کیا دلچسپی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کو موقع ملا اور انہوں نے بیان دے دیا کہ پیرس میں بارش ہونے سے شہر نہیں ڈوبتا۔ اس کی تکذیب میں ایک اخبار نے گزشتہ سال کی رپورٹ کھوج نکالی جس کے مطابق پیرس میں صرف دو گھنٹے کی بارش میں گلیاں، گھر اور میٹرو اسٹیشن پانی سے بھر گئے۔ امریکا میں بارش اور سیلاب سے سالانہ 306ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پیرس کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا لیکن ذرائع ابلاغ نے رواں برس ماہ جنوری سے اسے پانیوں کا شہر کہنا شروع کردیا۔ یہ رپورٹ شہباز شریف کے حق میں ہے اور عمران خان کے اس طنز کا جواب کہ لاہور کو پیرس بنانے کے دعوے جھوٹے نکلے۔ اب شہبازشریف کہہ سکتے ہیں کہ ان کا دعویٰ سچا ہے، لاہور ڈوب گیا تو کیا ہوا پیرس بھی تو ڈوب گیا تھا۔ لیکن کیا پیرس کی سڑکوں پر بھی اتنے بڑے بڑے شگاف پڑ گئے تھے جیسے لاہور کی اہم سڑک مال روڈ پر پڑ گئے اس سڑک کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ صرف دو ماہ پہلے بنی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے تو اس ٹھیکیدار کوپکڑا جائے جس نے یہ سڑک بنائی۔ ظاہر ہے کہ اس کی تعمیر میں گھٹیا مصالحہ استعمال کیا گیا اور حسب روایت کرپشن کی گئی۔ پیرس میں تو ایسا نہیں ہوا۔ سڑک پر پڑنے والے اس وسیع و عریض گڑھے کو فوری طور پر بھر تو دیا گیا ہے لیکن مٹی ڈال کر۔ ایک اور بارش ہوئی تو مٹی بہ جائے گی۔ یہ پنجابی محاورے کے مطابق ’’ ڈنگ ٹپاؤ‘‘ اقدام ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لاہور کو پیرس بنانے کے پیشتر اقدامات ڈنگ ٹپاؤ ہی تھے۔ بارش کے پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا چنانچہ پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔ پنجاب کے بجٹ کا 57 فیصد لاہور پر خرچ کیا گیا ہے لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں ۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ 24گھنٹے تک انتظامی مشینری کہاں رہی۔ انہوں نے خرابی کی ذمے داری نگران حکومت پر ڈال دی جسے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں ۔ شہباز شریف اپنے پائنچے چڑھا کر پانی میں اتر جاتے اور تصویریں بنوا لیا کرتے تھے لیکن نگران وزیر اعلیٰ کو اس کا تجربہ نہیں اور وہ کہیں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں آرام سے موسم کا مزا لیتے رہے ہوں گے۔ شہبازشریف ایسا موقع ضائع نہیں کرتے تھے۔ 10سال تک پنجاب پر حکمرانی کرنے والے جناب شہباز شریف نے صورت حال کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ اس سے نمٹنے کا انتظام کیوں نہیں کیا، ذمے داروں سے پوچھا جائے۔ فرمایا کہ مجھے حکومت چھوڑے ایک ماہ ہوگیا، میں ذمے دار کیسے ہوں ۔ پوچھا جائے کہ نکاسی آب کی ذمے داری کس کے پاس تھی؟ خاطر خواہ بندوبست نظر نہیں آیا تو حکومت سے پوچھا جائے۔ لیکن میاں صاحب! یہ خرابیاں جو سامنے آئی ہیں صرف ایک ماہ کی پیدا کردہ تو نہیں ہیں۔ ذمے دار تو وہی ہیں جنہوں نے 10سال تک حکمرانی کی اور بڑے بڑے دعوے کیے۔ کیا انہوں نے نکاسی آب کا معقول بندوبست کیا تھا۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی عمارت تعمیر کی جائے اور وہ ایک ڈیڑھ ماہ بعد ڈھ جائے تو ٹھیکیدار کہے کہ میں نے تو ایک ماہ پہلے اپنا کام مکمل کر کے عمارت کا قبضہ دے دیا تھا اب میں ذمے دار نہیں ۔ پانی سے بھرے ہوئے انڈر پاس گزشتہ ایک ماہ میں تو نہیں بنے اور جن اسپتالوں کی چھتیں ٹپک رہی ہیں وہ بھی چند دن کی خرابی نہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ نگران حکومتوں کو بارش سے نمٹنے کی نہیں ، انتخابات کرانے کی ذمے داری دی گئی ہے۔