ضلع وسطی میں مجلس عمل کی بر تری کے آثار نمایاں،مخالفین پریشان

203

کراچی (رپورٹ خالد مخدومی )کراچی کے ضلع وسطی میں مجلس عمل کو برتری ملنے کاامکانات واضح ہو گئے ،قومی اسمبلی کے حلقہ 256اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں 129 اور 130مجلس عمل کے امیدواروں ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی ،حافظ نعیم الرحمن اور نسیم صدیقی کی پوزیشن بہتر ہے۔ 2002ء کے انتخابات میں اس علاقے سے مجلس عمل سے مقابلے میں متحدہ قومی موومنٹ بدترین دھاندلی کے باوجو محض 800ووٹوں کے فرق سے جیتے میں کامیاب ہوسکی تھی، کراچی کے ضلع وسطی میں قومی اسمبلی کی 4جب کہ قومی اسمبلی کی 8نشستیں ہیں ووٹروں کی کل تعداد 1860137ہے جن میں 1022080مرداور838057خواتیں ووٹر شامل ہیں ،ضلع وسطی جولائی میں ہونے انتخابات سے قبل قومی اسمبلی کی 5 نشستوں والا ضلع تھا،نئی اور متنازعہ مردم شماری کے بعد ضلع وسطی سے قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 5سے کم کر کے 4کردی گئی ، جس پر جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے مردم شماری کے شفاف ہونے پر اپنے تحفظات کااظہار کیاتھا۔ضلع وسطی قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 253.254,255 اور256اورصوبائی اسمبلی کے حلقوں پی ایس 123.124.125.127,126,128,129اور130پرمشتمل ہے ۔ضلع وسطی کاحلقہ 256پورے نارتھ ناظم آباد کے ساتھ پاپوش نگر ،بفرزون اور ناگن چورنگی کے اطراف کے ووٹروں پر مشتمل ہے ، اکثریت نارتھ ناظم آباد میں رہائش پذیر ہے ،اس حلقے کے بڑے امیدواروں میں متحدہ مجلس عمل کے ڈاکٹرمعراج الہدی صدیقی ،متحدہ کے عامر چشتی ،پی ایس پی کے عادل صدیقی اورتحریک انصاف کے نجیب ہاروں شامل ہیں، گوکہ اس حلقہ میں اس قبل ہونے والے متعددعام انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کامیابی حاصل کرتی رہی ہے ،تاہم شہر کی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کے بعد عوامی رابطے رکھنے والے حلقے پورے شہرکے ووٹروں کے رحجان کی جس تبدیلی کااشارہ دے رہے ہیں ا س کے اثرات اس حلقے میں بھی نظر آرہے ہیں،اس وقت اس حلقے ایم کیوایم اور اس ہی کے بطن سے نکلنے والی پاک سرزمیں پارٹی کے امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اس ہی حلقے سے تحریک انصاف کے نجیب ہارون بھی اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں،تاہم عوامی حلقے اور تجزیہ نگار اس حلقے اور ا س کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے متحدہ مجلس عمل کے امید وار ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی ،حافظ نعیم الرحمان اور نسیم صدیقی کو مضبوط قرار دے رہے ہیں۔ا س بات کاقوی امکان نظر آتاہے کہ متحدہ کو جیتنے کے لیے ان تمام ہتھکنڈوں اور طاقت کے استعمال کا موقع نہیں مل سکے جو قبل وہ اختیار کرتی تھی،اور تمام سیاسی جماعتوں کواپنی انتخابی مہم آزادانہ اوربغیر کسی دباؤ کے چلانے کاموقع ملے گا،دوسری طرف 2002 میں ہونے والے انتخابات کے بعد یہ دوسرا موقع ہو گا جب ملک کی نمایان مذہبی سیاسی جماعتیں مل کر متحدہ مجلس عمل کے نام سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، 2002کے انتخابات میں قومی اسمبلی کاحلقہ نمبر 245ان ہی علاقوں پر مشتمل تھاجو نئی حلقہ حلق�ۂبندیوں کے بعد 2018کے انتخابات میں حلقہ 256 میں شامل ہیں،اس حلقے سے 2002میں سید منور حسن مجلس عمل کے امیدوار تھے جن کو متحدہ بدتریں دھاندلی ،طاقت کے استعمال اورحکومتی سرپرستی کے باوجود محض 800ووٹوں سے ہرانے میں کامیاب ہو سکی ،ایم کیوایم کی گروپ بندیوں اور دیگرسیاسی تبدیلوں کے تناظر میں سیاسی حلقے اس این اے 256،پی ایس129اور پی ایس 130سے مجلس عمل کے امیدواروں ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی ،حافظ نعیم الرحمان اور نسیم صدیقی کے لیے سازگار حالات کی نوید سنا رہے ہیں۔