آئین میں ترامیم کی نئی تجویز

190

سابق سیکرٹری دفاع ریٹائرڈلیفٹیننٹ جنرل آصف یٰسین ملک نے فرمایا ہے کہ آئین پاکستان کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ ان کے یہ ارشادات5جولائی کے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں اور یہ وہ تاریخ ہے جب 1977ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ایک بار پھر مارشل لا لگا کر آئین شکنی کی تھی اور آئین پاکستان کو چنداوراق پر مشتمل ایسی دستاویز قرار دیا تھا جسے طاق پر رکھ کر بھول جایا جائے ۔ بلا شبہ ضیاء الحق نے تاریخ کے پہلے سول مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کی مطلق العنانی اور’’ جمہوری مارشل لا‘‘ سے نجات دلائی جنہوں نے آخری وقت تک ملک پر ڈیفنس آف پاکستان رولز( ڈی پی آر) کے تحت ایمر جنسی نافذ رکھی اور صحافیوں سمیت ہر مخالف آواز کا گلا گھونٹ دیا تاہم ضیاء الحق آئین پامال کرنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ۔ ریٹائرڈ جنرل آصف یٰسین کے خیالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی جرنیل آئین پاکستان سے ہمیشہ نا خوش رہے ہیں حالانکہ یہ زمینی صحیفہ کبھی بھی فوج کا راستہ نہیں روک سکا ۔ فوجی حکمرانوں اورجرنیلوں کی یہی خواہش رہی کہ اس میں ترمیم کی جائے ۔ ترکی کے آئین میں فوج کو بے شمار اختیارات دیے گئے تھے جن سے بمشکل پیچھاچھڑایا گیا ۔ کیا پاکستان میں بھی کسی کی خواہش ہے کہ آئین میں فوج کو اقتدار میں شامل کیا جائے ۔ لیکن اس کے لیے آئین میں ترمیم کی کیا ضرورت ہے ۔ فوج اگر منظر عام پر نہ ہو تب بھی منظر میں رہتی ہے ۔ جنرل آصف نے آسمانی صحیفے کا حوالہ دیا ہے لیکن کیا طبقہ اشرافیہ اور مقتدر قوتیںآسمانی صحیفے کی پابند ہیں؟ جنرل آصف ملک نے کچھ خاص تبدیلیاں بھی تجویز کر دی ہیں جن میں موجودہ ووٹنگ سسٹم کو بدلنے پر زور دیا گیا ہے اور کہا ہے کہ آئینی طور پرووٹ ڈالنے کو لازم قرار دیا جائے ۔ اس پر چیئر مین سینیٹ رضا ربانی نے اختلاف کیا کہ ہر شہری کو آزادی ہونی چاہیے کہ ووٹ ڈالے یا نہ ڈالے ۔ فوج سے تعلق رکھنے والے افسران اگر آئین پر بات نہ کریں تو اچھا ہو گا کیونکہ فوج 5مرتبہ آئین پامال کر چکی ہے اورپاکستان پیپلز پارٹی 5 جولائی ہی کو یوم سیاہ منا رہی ہے ۔