کیا آج فیصلہ ہو جائے گا؟

218

آج ممکن ہے کہ عدالت عظمیٰ سے کوئی اہم فیصلہ آ جائے ۔ میاں نواز شریف نے درخواست کی ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ چند روز کے لیے موخر کر دیا جائے ،کوئی آفت نہیں آ جائے گی ۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر فیصلہ سننا چاہتا ہوں ۔ اس کے ساتھ ہی نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر نے وطن واپس نہ آنے کے فیصلے کا اعلان کیا ہے ۔ جب فوری طور پر ان کا واپس آنے کا ارادہ ہی نہیں تو وہ عدالت کے سامنے کھڑے ہوکر فیصلہ کب سنیں گے ۔ لندن میں ہونے والے رفقا کے اجلاس میں باپ بیٹی نے آج 6 جولائی کو احتساب عدالت اسلام آباد میں پیش نہ ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ دعوے تو یہی تھے کہ وہ عدالت کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے ۔مگر اب عدالتیں اور ان کے فیصلے مشکوک بلکہ جانبدارانہ ٹھیرائے جا رہے ہیں ۔ جہاں تک آج ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کا تعلق ہے تو فیصلے کے دو ہی پہلو ہو سکتے ہیں یعنی یا تو نواز شریف تمام الزامات سے بری ہو جائیں گے یا سزا ہو جائے گی ۔ اگر وہ بری ہو جاتے ہیں تو جب تک چاہیں لندن میں رہیں اور اپنی اہلیہ کی تیمار داری کرتے رہیں ، اللہ انہیں شفا عطا فرمائے ۔ اور اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو اس صورت میں بھی وہ واپس آنے سے رہے اور لندن ہی میں رہیں گے ۔ فیصلہ آج ہو یا ایک دو ہفتے بعد ، فرق کیا پڑے گا ۔ ممکن ہے کہ ان کے خلاف فیصلہ آنے پر ن لیگ کے ہمدردی کے ووٹ بڑھ جائیں ۔ اور اگر خدانخواستہ بیگم کلثوم نواز کی طبعیت میں بہتری نہ آ سکی تو بھی نواز شریف اور ان کی بیٹی کے لیے ہمدردی کے جذبات بڑھ جائیں گے ۔ دونوں باپ بیٹی باربار کہہ رہے ہیں کہ ہم جیل جانے سے نہیں ڈرتے جس سے ظاہر ہور ہا ہے کہ انہیں اسی بات کا خدشہ ہے ۔میاں صاحب اپنے ووٹروں سے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر جیل سے ہدایات جاری کروں تو ان پر عمل کرنا ۔ یعنی وہ اپنے تئیں فیصلہ کر چکے ہیں کہ انہیں جیل ہی جانا ہوگا ۔ اسی اثنا میں ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نجیب عبدالرزاق کو بد عنوانی اورا پنے ملک کو لوٹنے کے الزام میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ عبدالرزاق پر ساڑھے چار ارب ڈالر لوٹنے کا الزام ہے۔ یہ مثال میاں صاحب کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہ پاکستان ہے جہاں آصف علی زرداری کو 14 سال قید میں رکھنے کے باوجود کچھ ثابت نہیں کیا جا سکا حالانکہ ان کے سارے معاملات روز روشن کی طرح عیاں تھے اور ہیں ۔ ان سے کبھی یہ نہیں پوچھا گیا کہ وہ اچانک کھرب پتی کیسے بن گئے جب کہ وراثت میں بھی کوئی قابل ذکر جائداد نہیں ملی ۔ ماہرین قانون کا تجزیہ یہ ہے کہ نواز شریف کے دفاع میں مقدمہ ڈھنگ سے نہیں لڑا گیا اور قانونی دلائل کے بجائے اِدھر اُدھر کی باتیں کی گئیں ۔ ایسا ہی کچھ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں ان کے وکلاء صفائی نے کیا اور انہیں پھانسی پر چڑھا دیا ۔ آصف علی زرداری بہت ہوشیار نکلے کہ انہوں نے اپنا ہر نقش قدم مٹا دیا اور کوئی ثبوت نہیں چھوڑا ۔ چنانچہ اگر وہ میاں نواز شریف سے کہتے رہے ہیں کہ سیاست ان سے سیکھیں تو کچھ غلط نہیں کہتے ۔ آصف زرداری بڑے استاد ہیں جنہوں نے جیل بھی کاٹی تو بڑے کروفر کے ساتھ ۔ زیادہ عرصہ تو وہ ڈاکٹر عاصم کے کلفٹن والے اسپتال میں اس طرح رہے کہ پورا ایک فلور ان کے لیے وقف ہوتا تھا جہاں ان کی پسند کی ہر شے فراہم کی جاتی تھی ۔اور اگر جیل میں بھی رہے تو اس شان سے کہ وہیں سے باپ بن گئے ۔ ایسی خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ وہ قید میں ہوتے ہوئے اپنی بچی کی سالگرہ میں شرکت کرتے تھے ۔ لیکن یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن کے مطابق زبان زد عام تھا ۔ میاں صاحب پر طنز کیا جاتا ہے کہ جب وہ جیل میں تھے تو مچھروں کی شکایت کرتے تھے اور اب انہیں ڈرایا جا رہا ہے کہ اڈیالہ جیل میں کوٹھڑی کی صفائی کی جا رہی ہے ۔ میاں نواز شریف الیکشن تو نہیں لڑ رہے لیکن اپنی پارٹی کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کاپاکستان میں رہنا بہتر ہوتا ۔ ان کی بیٹی مریم صفدر لاہور کے حلقے سے الیکشن لڑ رہی ہیں جہاں ان کی حریف پی ٹی آئی کی نمائندہ ڈاکٹر یاسمین بھر پور مہم چلا رہی ہیں ۔ گو کہ حمزہ شہباز نے مریم کی الیکشن مہم چلانے کا اعلان تو کیا ہے لیکن مریم کی موجودگی زیادہ موثر ہوتی ۔ میاں نواز شریف نے لندن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیپ والوں سمیت عوام کی حکمرانی کا راستہ روکنے والے عبرت کا نشان بنیں گے ۔ گویا ان کا دور عوام کی حکمرانی کا دور تھا ۔ ایسا دور پاکستان میں تو کبھی نہیں آیا حالانکہ جمہوریت کو کہا جاتا ہے کہ یہ عوام کے لیے عوام کی حکمرانی کا طریقہ ہے ۔بے چارے عوام کوتو آج تک پتا ہی نہیں چلا کہ حکمرانی میں کچھ ان کا بھی حصہ ہے ۔ عوام کو کبھی کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی جس کا اظہار اس وقت کھل کر ہو جاتا ہے جب یہ حکمران سڑکوں پر نکلتے ہیں اور ’’ حکمران عوام‘‘ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر ظل الٰہی کے لیے راستے صاف کر دیے جاتے ہیں ۔ عوام کی نمائندگی کے دعویدار ،عوام کے یہ خادم ان کے خوف سے ایک حصارمیں رہتے ہیں اور ان سے بچنے کے لیے سیکورٹی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ نواز شریف نے’’ جیپ والوں‘‘ کو عوام کا راستہ روکنے والا قرار دیا ہے ۔ جیپ کو فوج کانشان قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ جیپ تو عام آدمی کے پاس بھی ہوتی ہے ۔ لیکن جیپ بھی تو میاں نواز شریف کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے عوام کا نہیں بلکہ ان کا راستہ روک رہی ہے ۔ اپنے34سالہ مخلص ساتھی چودھری نثار کو ٹکٹ نہیں دیا چنانچہ انہوں نے جیپ کے نشان پر آزادانہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اب متعدد آزاد امید وار جیپ پر چڑھ گئے ہیں یا چڑھائے جار ہے ہیں ۔ نواز شریف چودھری نثار کو الگ ہونے پر مجبور نہ کرتے تو وہ آج بھی ن لیگ کا دست و بازو ہوتے ۔ مریم نواز کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ انتخابات تک کسی امید وار کوگرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ جیل جانے کو تیار ہوں ۔ یاد رہے کہ جیل میں بیوٹی پارلر نہیں ہو گا ۔ ن لیگ مطمئن ہے کہ گرفتاری کی صورت میں نواز شریف کو فائدہ ہو گا ۔ ان کی درخواست پر اگر آج فیصلہ نہیں دیا جاتا تو ایک ہفتہ یا ایک ماہ بعد سنا دیا جائے گا ۔ فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے ، اب اس میں تبدیلی کا امکان نہیں ۔ پھر جو کام کل ہونا ہے ، آج ہی ہو جائے ۔ ابھی تو نواز شریف پر اور بھی کئی مقدمات ہیں ۔