سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے مخالفین کو ’’سیکورٹی رسک‘‘ کہا کرتے ہیں آج ان کے مخالفین انہیں غدار وطن کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف پر آئین کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کیا تو ان کے ہمدردوں نے سمجھایا کہ ایسا مت کرو۔ آرمی چیف پر غداری کا مقدمہ چلانے سے ملک کی جگ ہنسائی ہوگی، قوم کے لیے بھی باعث ندامت ہوگا، فوج بھی اس اقدام پر اپنے تحفظات کا اظہار کرسکتی ہے مگر میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کے ہنڈولے میں بیٹھے لمبی لمبی پینگیں لے رہے تھے، ان کا دماغ ساتویں آسمان پر تھا اور انداز تکبر ہمالیہ کی چوٹی کو شرمسار کررہا تھا۔ حالاں کہ جنرل پرویز مشرف نے ان کے ساتھ کسی بھی زیادتی کا ارتکاب نہیں کیا تھا وہ تو خلاؤں میں موت اور زندگی کے درمیان متعلق تھے، آپ کا حکم تھا کہ جنرل پرویز مشرف پاکستان کی سرزمین پر قدم نہ رکھے۔ پائلٹ نے استدعا کی کہ ایندھن ختم ہورہا ہے اگر کسی قریبی ہوائی اڈے پر اُترنے کی اجازت نہ ملی تو جہاز مسافروں سمیت تباہ ہوسکتا ہے۔ میاں صاحب یاد کریں آپ نے حکم دیا تھا کہ کہیں بھی چلے جاؤ ’’گویا آپ آرمی چیف آف پاکستان کو بھارت کے حوالے کرنے کا تہیہ کرچکے تھے، آپ کے ارادوں کو بھانپ کر فوج نے اپنا فرض ادا کرنے میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہ کیا۔ یوں آپ کے ارادوں کا ملبہ آپ کی حکومت پر گرپڑا اور جلا وطنی آپ کا مقدر بن گئی مگر چند برسوں کے بعد آپ کے ستارے گردش سے نکل آئے اور اقتدار کی غلام گردشیں آپ کا مقدر بن گئیں۔ اختیار کا عصا آپ کے ہاتھ آیا تو آپ شیطانی قوتوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ جنرل پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ دائر کردیا۔ یوں آپ نے اپنی بدنصیبی پر مہر لگادی، حالاں کہ آپ کو بہت سمجھایا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 6 سویا ہوا شیر ہے اسے نہ جگایا جائے۔ آرٹیکل 6 ایسا قانون ہے جو پٹواری سے لے کر وزیراعظم پر بھی لاگو ہوسکتا ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف عدلیہ کے ذریعے پرویز مشرف پر پاکستان کی زمین تنگ کرنا چاہتے تھے مگر عدلیہ نے ان پر ایوان اقتدار کے دروازے بند کردیے ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا فرمان ہے کہ عدلیہ ایک آزاد ادارہ ہے مگر کسی بھی جج کو اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ لوگوں پر ظلم ہورہا ہے، شہریوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں، جج داد رسی نہ کریں تو معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ بینچ اور بار ایک جسم کے دو حصے ہیں جج بار کی عزت کریں۔ آپ کا فرمان ہے کہ عدلیہ ایک آزاد ادارہ ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ ادارہ ضرورت سے کچھ زیادہ بلکہ زیادہ ہی آزاد ہے۔ چیف صاحب! بے دل مریض کو آکسیجن زندگی کی نوید دیتی ہے مگر بیانات کی آکسیجن مزید بے حال کردیتی ہے۔ اتنا بے حال کہ مریض موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے، ہمارا نظام عدل بھی بیانات کی آکسیجن پر زندہ ہے، انصاف نایاب بن چکا ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو بھینس کا مالک وہی ہے اور بدنصیبی یہ ہے کہ یہی اصول انصاف کے معاملے میں بھی کار فرما ہے۔