میاں منیر احمد
اس بار کتاب اور کتاب کے ذریعے انقلاب‘ اک واری فیر‘ شیر اور بھٹو تیرا نام زندہ ہے‘ دو نہیں ایک پاکستان‘ یہ وہ نعرے ہیں جو حالیہ انتخابی مہم میں لگ رہے ہیں ان سب نعروں میں تعلیم‘ صحت عامہ اور بنیادی انسانی حقوق‘ بہترین سماجی ماحول اور بروقت انصاف کی فراہمی کہیں نظر نہیں آرہی‘ اسی لیے یہ سوچ پروان چڑھتی ہے کہ انتخاب سے پہلے احتساب‘ احتساب کا مطالبہ اور نعرہ اس لیے بھی مقبول ہے کہ جن مکانوں کو خریدنے کا کوئی عام شہری تصور بھی نہیں کرسکتا‘ اُن کوٹھیوں اور بنگلوں کی قیمتیں یہ لوگ 100 گز کے مکان کی قیمت سے بھی کم بتاتے ہیں۔ ان بااثر لوگوں کی اوطاقوں میں لوگوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے اور کھیتوں میں کام کرنے والے ہاریوں کو مکمل معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا بس حکم کی تعمیل کی جاتی ہے کسی وڈیرے جاگیردار کے کھیتوں کی طرف جانے والے ندی نالوں سے پانی نکالنے والوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ جوان لڑکیوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے، مگر آپ یقین نہیں کریں گے کہ ان لوگوں کو انصاف ملنا دیوانے کا خواب تو ہوسکتا ہے، مگر کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔
یہ لوگ ہر بار کیوں منتخب ہوجاتے ہیں اس لیے انہیں کوئی گود لے لیتا ہے‘ شیخ رشید احمد بھی انہی میں سے ایک ہیں فرق یہ ہے کہ وہ ہمیشہ طاقت ور گود کی تلاش میں رہتے ہیں اور اچھل کر خود ہی اس کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔ شیخ رشید احمد کو راولپنڈی کا لیڈر بنانے کا ’’سارا گناہ یا ثواب‘‘ نواز رضا کے لیے ہے وہ انہیں 2002 تک اپنی گود میں لیے بیٹھے رہے‘ اس کے بعد حالت بدلے تو اب زمانہ ہو گیا کہ چراغوں میں روشنی نہیں رہی۔
یہ گود میں لینے کا عمل بھی دلچسپ ہے‘ کبھی خبر پڑھتے ہیں کہ فلاں اداکارہ نے چڑیا گھر سے فلاں جانور گود لے لیا ہے‘ پھر کچھ عرضے کے بعد خبر پڑھتے ہیں کہ جس نے گود لیا تھا وہ اس جانور کی پرورش کے پیسے نہیں بھجوا رہی‘ گود لینے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اس جانور کے اخراجات اٹھائے‘ یہی حال سیاست دانوں کا ہے انہیں کوئی گود لیتا ہے تو کچھ عرصے تک تو کینگرو کی جھولی میں رکھا جاتا ہے اس کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اس بات کا تجربہ نواز شریف کو زیادہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر انتخابات کے موقع پر ایک کینگرو جنگل سے آتا ہے اور کسی ایک جماعت کو گود میں لے لیتا ہے ماضی کے تجربات اور مشاہدات کے نتائج دیکھنے کے باوجود ہر سیاسی جماعت اور شخصیت اس کینگرو کی جھولی میں جانا پسند کرتی ہے بلکہ کسی حد تک تو ترستی ہے اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ملک میں انتخابات ہوجاتے ہیں مگر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا‘ بس عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں جانے والوں کے کتنے اثاثے بڑھ جاتے ہیں ان اثاثوں کے بڑھنے کے جہاں یہ سیاست دان ذمے دار ہیں وہیں کینگرو بھی ذمے دار ہے اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ جن کو گود لیا ہے ان سیاست دانوں کے بچے کہاں پڑھتے ہیں؟ اگر یہ لوگ بیمار ہوجائیں تو علاج کے لیے لندن اور امریکا کیوں جاتے ہیں؟ اسی لیے بنیادی سہولتوں پر عوام کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا اگر ووٹ ڈالنے والا یہ جان لے کہ اس کے ووٹ کی قیمت اور اہمیت کیا ہے تو لازمی ہے تبدیلی آجائے اگر ووٹر یہ چاہتے ہیں اور ملک کا نظام بدلنے کے خواہش مند ہیں تو پھر اپنے حق کے لیے اٹھیں، سوچنا کیسا؟ بس فیصلہ کریں اور نظام بدلنے کی ٹھان لیں اور سماج کو جواب دیں کہ ہم دور جاہلیت میں نہیں جی رہے ہیں‘ ہم جانتے ہیں کہ۔۔۔؟ میرا ووٹ کس کے لیے اور کیوں؟
پاکستان کی 71 سالہ سیاسی تاریخ کا یہ دوسرا موقع ہے جب جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ جمہوریت کا فروغ یقیناًخوش آئند عمل ہے سیاسی تناظر میں کئی شخصی خاکے اور سیاسی بت زمین بوس ہوچکے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی ہانڈی جس طرح بیچ چوراہے پر پھوٹی ہے بقا کی جنگ ہے جو لڑی جارہی ہے لیکن اس خلا کا فائدہ اٹھانے کے لیے دیگر سیاسی جماعتیں بھی اٹھ کھڑی ہوئی ہیں کچھ غلط فیصلوں نے عوام کو مایوس کردیا عوام تبدیلی چاہتے ہیں لیکن صرف حقیقی تبدیلی‘ مگر یہاں تو ٹکٹ تقسیم کے معاملے پر کھلاڑیوں، متوالوں اور جیالوں کے باہم دست و گریباں ہونے اور پارٹیوں میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے یہ لوگ انقلاب کہاں لائیں گے کیوں کہ ووٹ سے نوٹ تک کا سفر جاری ہے۔