ضابطہ اخلاق اور الیکشن کمیشن 

405

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے توجہ دلائی ہے کہ الیکشن کمیشن ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد میں ناکام ہوگیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ کیا ضابطہ اخلاق پر عمل انتخابات کے بعد کرایا جائے گا۔ یہی سوال مجلس عمل کراچی کے صدر حافظ نعیم الرحمن نے بھی کیا ہے کہ الیکشن کمیشن اربوں روپے کی اشتہاری مہم کا نوٹس لے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تمام چیزیں الیکشن کمیشن کے علم میں نہیں ہیں بلکہ غیر ضروری طور پر بہت سی چیزوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اب تو مجلس عمل کے انتخابی امیدوار کے قافلے پر حملہ بھی ہوگیا ہے ایک طرف الیکشن کمیشن بلاول کے ووٹرز کے احتجاج پر انہیں تحفظ فراہم کرنے کے احکامات دے رہا ہے اور دوسری طرف انتخابی امیدوار کے قافلے پر باقاعدہ حملہ ہوگیا لیکن الیکشن کمیشن نے نوٹس نہیں لیا۔ ایک پارٹی کے لیڈر کو دوسری پارٹی کا انتخابی نشان دے دیا گیا۔ بلاول بھٹو کی پارٹی تلوار کے نشان پر رجسٹرڈ ہے لیکن انہیں تیر کا نشان دے دیا گیا۔ بیلٹ پیپرز پر نوٹا یا کوئی نہیں کا خانہ شامل کرنے کے مسئلے پر اتنی تاخیر کرکے جواب دیا کہ بیلٹ پیپرز ہی چھپنے چلے گئے۔ انتخابی حلقوں اور ووٹر لسٹوں پر بھی درجنوں اعتراضات موجود ہیں اور الیکشن کمیشن نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ ایسے حالات میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کیونکر یقینی ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اپنے ضابطہ اخلاق کے مطابق سیاسی پارٹیوں کو ایک مخصوص سائز کے پوسٹرز اور بینرز لگانے کی اجازت ہے لیکن ہر سائز کے بینرز اور پوسٹرز ہٹائے جارہے ہیں۔ سرکاری کھمبوں اور پرائیویٹ دیواروں پر بھی پوسٹرز اور بینرز لگانے پر پابندی لگادی گئی ہے تو کہاں لگائے جائیں اس کا آسان طریقہ یہ تھا کہ ہر پارٹی کو ٹی وی چینلز پر خصوصاً سرکاری ٹی وی پر یکساں مواقع دیے جائیں۔ لیکن ٹی وی چینلز پر بھی چند پارٹیوں کی مہم چل رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کو ٹی وی چینلز پر اشتہارات کی بھرمار نظر نہیں آرہی۔ پہلے سے کسی کو وزیراعظم قرار دینے کی کوشش کے کیا معنی ہیں۔ ملک بھر سے انتخابی فہرستوں میں گڑ بڑ کے خلاف اعتراضات کیے جارہے ہیں ایک لیڈر کے بیان پر افسران تو تبدیل کردیے جاتے ہیں اور فہرستوں پر اعتراضات کی سنی ان سنی کردی جاتی ہے۔ شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کا شفاف ہونا بھی ضروری ہے۔