کیا احتساب انجام کو پہنچے گا؟

330

پاکستان میں طاقتور لوگوں کا احتساب شروع ہوگیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سابق سربراہ اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ان کی بیٹی اور داماد کو سزا سنادی گئی ہے۔ اور اب مسٹر ٹین پرسنٹ سے مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ بننے والے سابق صدر آصف زرداری کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ان کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ ان کے خلاف یہ کیس 2014ء اور 2015ء کا ہے۔ میاں نواز شریف کے خلاف تو ان کی نا اہلی کے بعد کیسز داخل ہوئے اور مسلسل چل رہے ہیں لیکن آصف زرداری کے خلاف کیس کھولنے میں تاخیر یا عین انتخابات کے موقع پر بند کیس پر دوبارہ تحقیقات شروع کی گئی۔ اس بات کے اشارے مل رہے ہیں اور الزامات لگائے جارہے ہیں کہ ملک کے سیاسی نظام کے حوالے سے کہیں اور سے معاملات چلائے جارہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ جن لوگوں کے خلاف کیسز چلائے جارہے ہیں جو مقدمات سامنے آرہے ہیں یہ لوگ نیک نام نہیں ہیں ان کے معاملات صاف نہیں۔ لیکن ایف آئی اے، نیب اور دیگر ادارے اب تک کیوں بیٹھے ہوئے تھے عین الیکشن کے وقت فیصلے دیے جارہے ہیں اس کے اثرات دو طرفہ ہوسکتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کے وطن واپسی کا اعلان کردیا ہے ان کے داماد نے گرفتاری دیدی ہے۔ ممکن ہے گرفتاری اور جیل بھیجے جانے کے بعد پارٹی کی پوزیشن بدل جائے۔ لیکن اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ ن لیگ نواز شریف کے خلاف ہر فیصلے کا فائدہ اٹھارہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم اور زور پکڑے گی۔ اگر نواز شریف ملک پہنچ گئے اور گرفتاری دیدی تو کیا ہوگا۔ یہ بات سامنے نظر آرہی ہے کہ اس کا فائدہ بھی مسلم لیگ کو ہوگا۔ اب دوسری پارٹی پیپلزپارٹی کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ چار سال انتظار کیوں کیا گیا۔ یہ بالکل اسی طرح کا کھیل ہے جب آصف زرداری صاحب کو بری کرنا تھا تو 17 برس بعد نیب عدالت کے جج کو پتا چلا کہ فوٹو کاپی ثبوت نہیں ہوتی۔ اب 4 برس بعد پتا چلا کہ ملک کے اربوں روپے لوٹے گئے ہیں۔ ان باتوں سے لگتا ہے کہ یہ سارے اقدامات کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہیں۔ تیسری قوت عمران خان رہ جاتے ہیں۔ معاملات ان کے بھی صاف نہیں ہیں لیکن ہر طرف سے کلین چٹ مل رہی ہے اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو سمجھا جائے گا کہ دوسروں کے خلاف گھیرا تنگ کرکے ایک پارٹی کو آگے لایا جارہا ہے۔ حکومت، ایف آئی اے، نیب اور عدالتیں اس شبہے کو رفع کریں۔ فی الحال تو سیاسی حلقوں میں یہی خیال باز گشت کررہا ہے کہ ڈوریاں کہیں اور سے ہل رہی ہیں ایک زمانے میں جب پاکستان میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانا بھی مشکل تھا، امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے کرپشن کے خلاف تحریک شروع کی تھی سید منور حسن اور ان کے بعد سراج الحق اس تحریک کو لے کر چل رہے ہیں۔ اس وقت قاضی حسین احمد نے یہ بھی کہا تھا کہ جب ان کرپٹ قوتوں کے خلاف گھیرا تنگ ہوگا تو بظاہر ایک دوسرے کے دشمن نظر آنے والے یہ گروہ ایک ہوجائیں گے اور پاکستانی قوم نے فرینڈلی اپوزیشن، این آر او کی ایک ہی کشتی میں سب کو ایک ساتھ دیکھا اور اب ایک بار پھر مسلم لیگی وفد بلاول ہاؤس پہنچ گیا۔ دو دشمنوں میں رابطہ بحال ہوگیا ہے اسے خوش آئند بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ سیاسی قوتیں ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ دونوں ہی پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ ممکن ہے یہ ایک دوسرے کو بچانے کے لیے پھر کوئی این آر او یا کوئی کھیل کھیلیں۔ اس ملک کے عوام کو جولائی کی 25 تاریخ کو ایک اہم موقع مل رہا ہے انہیں ہر ایک کی کرپشن نظر آرہی ہے میڈیا بھی کرپشن کررہا ہے۔ ایک دو پارٹیوں ہی کی مہم کی کوریج کررہا ہے عوام اس پر بھی نظر رکھیں اگر وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو پھر آنکھیں اور دل کھلے رکھیں۔ ورنہ یہی لوگ پھر گھوم پھر کر آئیں گے اور دس بارہ برس بعد قوم کرپشن، مہنگائی، بجلی، بیروزگاری، بد امنی کا رونا رو رہی ہوگی۔ یہ جو شکوک ظاہر کیے گئے ہیں یہ عبث نہیں ہیں اس سے قبل بھی آصف زرداری جیل گئے اور پھر ایوان صدر پہنچ گئے۔ نواز شریف جیل گئے اور جلا وطن ہوئے اور پھر وزیراعظم بن گئے۔ جادوگر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔