گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر وکلا سے مختلف سوالات کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی اہم وجہ سائلین کی لاپروائی اور مقدمات سے عدم دلچسپی ہے یا اس کی بڑی وجہ وکلا کی ہڑتالیں اور غیر سنجیدہ رویہ ہے۔ وکلا سے یہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی کہ عدالتوں پر مقدمات کے انبار کی وجہ غیر ضروری مقدمات ہیں یا اس کی کوئی اور وجہ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گفتگو میں شامل تمام وکلا کی رائے تھی کہ عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ کی وجہ غیر ضروری مقدمات کی سماعت ہے۔ مقدمہ بے جان ہو تو کوئی بھی وکیل اس پر جان لڑانا پسند نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ اور جلد انصاف کی فراہمی میں غیر ضروری مقدمات کی سماعت تو پھر۔۔۔ غیر ضروری مقدمات کی سماعت اور پیروی پر پابندی عائد کرنے میں کون سا امر مانع ہے۔ یہ کہنا کہ مقدمہ دائر کرنا ہر شہری کا حق ہے انتہائی لغو اور بے معنی دلیل ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مدعا علیہ بھی تو شہری ہوتا ہے، ظاہر ہے وہ بھی شہری حقوق رکھتا ہے تو پھر عدالتیں اس کے شہری حقوق سے اغماض کیوں برتتی ہیں، اسے مالی اور ذہنی اذیت کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ غیر ضروری اور جعل سازی پر مبنی مقدمات انصاف کی فراہمی اور فوری انصاف کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں تو اس کے سدباب کے بارے میں کوئی لائحہ عمل کیوں تشکیل نہیں دیا جاتا۔ غیر ضروری اور جعلی مقدمات میں اپیل در اپیل کی سہولت کا انسداد کیوں ضروری نہیں سمجھا جاتا۔
ایک اندازے کے مطابق وطن عزیز کی چھوٹی بڑی عدالتوں میں ایک کروڑ 90 لاکھ مقدمات زیر سماعت ہیں اور ججوں کی تعداد صرف 4 ہزار ہے گویا ہر جج کو 4750 مقدمات روزانہ سماعت کرنا پڑتے ہیں اور اگر ان مقدمات کو ورکنگ دنوں میں تقسیم کریں تو ہر جج کو روزانہ 16 مقدمات کا فیصلہ کرنا ہوگا جو ممکن نہیں۔ اس پس منظر میں اہل دانش نے تجویز دی ہے کہ جج صاحبان کی تعداد بڑھا دی جائے تا کہ انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ ججوں کی تعداد میں اضافہ دیر طلب ہی نہیں دقت طلب مسئلہ ہے۔ سو، اس مسئلے کا فوری حل یہ ہے کہ غیر ضروری اور جعلی مقدمات کی سماعت اور پیروی کو قابل تعزیر عمل قرار دیا جائے۔ جعل سازی پر مبنی مقدمات تعزیر پاکستان کی حد میں شامل کردیے گئے تو کوئی بھی وکیل جعلی مقدمات کی پیروی نہیں کرے گا۔ یہ عمل وکلا کے لیے باعث پریشانی تو ہوگا مگر عدالتوں پر مقدمات کا جو کچرا ڈالا گیا ہے اسے صاف کرنے میں آسانی ہوگی۔
بعض لوگوں کے خیال میں ایسا کوئی بھی قانون بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کے خلاف ہوگا۔ جو شخص کومے کی حالت میں بستر مرگ پر پڑا ہو اس کے جلال و جمال کی تعریف بے معنی ہے۔ جمہوریت ایک خوب صورت طرزِ حکمرانی ہے مگر اس سے فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری اصولوں پر عمل کیا جائے، جمہوری کلچر کی عدم موجودگی میں جمہوریت کا ورد بے معنی اور لاحاصل ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو کراچی کے کچرے کی بہت فکر ہے اور انہوں نے ازخود نوٹس لے کر کراچی کو صاف شفاف بنانے کے احکامات بڑی سختی سے جاری کیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ چھوٹی بڑی عدالتوں میں مقدمات کا جو کچرا پڑا ہوا ہے اسے کون صاف کرے گا؟ اور اس کے لیے ازخود نوٹس کون جاری کرے گا؟ اور اس حقیقت کا اعتراف کون کرے گا کہ عدالتیں صاف شفاف ہوں تو معاشرہ مثالی بن جاتا ہے۔