ڈیم فنڈز اور فوج

201

عدالت عظمیٰ کی جانب سے پاکستان میں دو ڈیمز بنانے کے اعلان کے بعد تیز رفتاری سے اقدامات ہورہے ہیں ایک فنڈ قائم کیا گیا اس پر حکومت نے دعویٰ کیا کہ ہم نے فنڈ قائم کردیا ہے۔ پھر اگلے ہی دن چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے نگراں حکومت ڈیمز کی تعمیر کا سہرا اپنے سر لینا چاہ رہی ہے اور عدالت عظمیٰ نے اسے روک دیا ہے۔ پھر اچانک پاک فوج کی جانب سے ڈیم کیلئے فنڈ دینے کا اعلان کردیا گیا۔ گویا عدالتی اور فوجی تعاون کے الزامات کو تقویت دینے والا کام کردیا گیا۔ یہ ایک اچھے کام میں تعاون کا اظہار ہے مگر اس کام کو جس انداز میں کیا جارہا ہے جس طرح کے اعلانات بیانات اور تبصرے ہورہے ہیں وہ شبہات پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے وزارت خزانہ کی جانب سے ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز کی خاطر اکاؤنٹ کھولنے کا نوٹس لے لیا اور اٹارنی جنرل سے اس معاملے کی حقیقت معلوم کرنے کو کہا ہے۔ لیکن ابھی تو حقیقت سامنے نہیں آئی چیف جسٹس نے فیصلہ بھی سنا دیا کہ ڈیمز کے لیے چندہ دینے کے مسئلے پر لوگ حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ایک پیسہ دینے کو تیار نہیں۔ گویا جو لوگ حکومت کے قائم کردہ اکاؤنٹ میں پیسہ جمع کرائیں گے وہ چیف جسٹس یا عدالت عظمیٰ اور فوج کیخلاف کام کریں گے۔ پہلے تو ڈیمز سیاسی مسئلہ تھے لیکن یہ کون سا اختلاف ہے اور وہ بھی نگراں حکومت سے جو بہت سی چھلنیوں سے چھن کر بنائی گئی ہے یقیناً عدالت کے سربراہ اور فوج کے علم میں بھی ہوگا۔ اس فنڈ کے قیام کے ساتھ بھی پاک فوج کی جانب سے افسران کی دو ماہ اور سپاہی کی ایک دن کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ فوج کے سربراہ نے پورے ایک ماہ کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کام باقی سرکاری ملازمین بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن کیا اتنے پیسوں میں یہ دو ڈیمز بن جائیں گے۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ لوگ عدالت، فوج اور حکومت سب ہی کو حکومت سمجھتے ہیں۔ کیا ملک بھر کے عام لوگ اس فنڈ میں عطیات دے رہے ہیں کیا وہ اس فنڈ پر اعتبار کرنے لگے ہیں۔ اگر ڈیم بن ہی رہے ہیں تو اس میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان کشمکش کیوں ہے۔ طویل عرصے بعد تو ملک میں پانی کے بحران کے حوالے سے اچھی خبر سننے کو ملی تھی اب اس کو تنازعات کی نذر نہیں ہونا چاہیے ۔اب جبکہ عدالت کے حکم پر فنڈ بھی قائم ہوگیا ہے تو حکومت کو بھی اس حوالے سے کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام اس کا کس طرح استقبال کرتے ہیں کیونکہ وہ تو مجبور نہیں کہ انہیں حکم دیا جائے اور وہ ایک دن یا دو دن کی تنخواہ دے دیں۔ قوم میں اپنا سب کچھ لگانے کا جذبہ پیدا کرنا آسان نہیں اس کے لیے اس کا مطالبہ کرنے والوں کی جانب سے بھی ایسے ہی رویے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور فی الحال قوم اعتماد کے بحران کا سامنا کررہی ہے۔ ہر طرف شکوک و شبہات ہیں اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔