سینیٹ کی قرارداد ،دیر آید درست آید

418

پاکستانی سینیٹ نے متفقہ طور پر ملک سے سود ختم کرنے کی قرار داد منظور کرلی۔ اسٹیٹ بینک کی سابق گورنر نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے اصولی طور پر اس قرار داد کی مخالفت نہیں کی۔ قائد ایوان سینیٹر راجا ظفر الحق نے واضح کہا ہے کہ حکومت اس قرار داد پر 3 ماہ میں عملدرآمد کی پابند ہے۔ اس حوالے سے دینی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ٹائم فریم دے۔ راجا ظفر الحق کی وضاحت کے بعد تو حکومت کو اس قرار داد پر عملدرآمد کی تیاری کرنا چاہیے تھی لیکن حکمران نگراں ہوں یا منتخب سب کی ڈوریاں ایسی جگہ سے ہلائی جاتی ہیں جہاں سود کو جائز سمجھا جاتا ہے بلکہ دنیا بھر کا سودی نظام بھی وہیں سے چلایا جاتا ہے۔ لہٰذا دینی جماعتوں کو یہ مطالبہ کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ سودی معیشت کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی ہورہی ہے، ریاست اور عوام مشکلات سے دوچار ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر انفرادی طور پر کوئی یہ کام کرے تو بھی وہ اللہ اور رسول سے جنگ کے مترادف ہے۔ اور اگر کوئی ریاست کرے تو اور بھی بڑا گناہ ہے۔ اور پاکستانی ریاست گزشتہ 70 برس سے اس گناہ میں مشغول ہے۔ پاکستان میں جمہوریت، فوجی حکمرانی، مخلوط حکومتیں جنرل ضیا الحق کا اسلام، بھٹو کا اسلامی سوشلزم، بے نظیر اور مشرف کی روشن خیالی سب کچھ مسلط کرکے دیکھ لیا گیا ہر آنے والے سال ملک کے قرضے اور مسائل بڑھ رہے ہیں۔ وسائل کی موجودگی میں مسائل میں اضافہ ہورہا ہے اور وسائل بے کار پڑے ہوئے بلکہ ضائع ہورہے ہیں۔ پانی موجود ہے لیکن ضائع ہوجاتا ہے۔ جو آسکتا تھا اس پر بھارت نے قبضہ کرلیا ہے، ملک میں بیروزگاری، بد امنی اور بے چینی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ ظاہری بات ہے یہ ساری کی ساری سودکی لعنت ہے۔ جس کی وجہ سے بے برکتی ہے۔ لیکن ایک بہت بڑا سوال ہے کہ جس ملک میں حکمران سود کے حق میں عدالت میں چلے جائیں۔ طاقتور عدالت کا سربراہ سوال اٹھائے کہ سود اور منافع ایک ہی تو ہیں اس کا فرق بتایا جائے۔ آخر منافع کو سود اور سود کو منافع کیوں نہیں کہا جاتا۔ جس ملک میں ماہرین معاشیات یہ ماننے کو تیار نہ ہوں کہ سود کے بغیر بھی معیشت چل سکتی ہے اس ملک میں سینیٹ کی قرار داد منظور ہو جائے اور یہ حکمران مان جائیں؟ طریقہ کار تو یہی ہے کہ حکومت تین ماہ میں قرار داد پر عملدرآمد کی پابند ہے ورنہ اسے وجہ بتانی ہوگی اور تین ماہ بعد یا اس سے قبل حکومت وہی پرانی وجوہات بیان کررہی ہوگی کہ آج کل کہیں سودی نظام کے بغیر حکومت نہیں چل سکتی اور یہ موجودہ دور میں ممکن نہیں ہے۔ حالانکہ جس دور میں اللہ کے نبیؐ نے سود کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اس دور میں یہی باتیں کی جاتی تھیں کہ تجارت اور ربواء ایک ہی تو ہیں اور یہ کہ اس دور میں یہ نظام ختم کرنا ممکن نہیں۔۔۔ لیکن یہ نظام نہ صرف ختم ہوا بلکہ کم و بیش ہزار برس سے زیادہ نافذ رہا۔ یہ سودی نظام تو دو چار سوسال سے پوری دنیا کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ اور جب سے اس نے قدم جمائے ہیں پوری دنیا تباہی کے دہانے پر ہے۔ بلکہ عملاً تباہ ہورہی ہے۔ یہ بات بہر حال لائق تحسین ہے کہ سینیٹ نے متفقہ طور پر قرار داد منظور کرلی اسے دیر آید درست آید کے بجائے بہت دیر آید کہا جانا چاہیے لیکن پھر بھی درست ہے۔ یہ بات تو تجربے سے ثابت ہوچکی ہے کہ حکمراں اس ملک سے سودی نظام کا خاتمہ نہیں چاہتے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قرار داد کے محرک پی ٹی آئی کے شبلی فراز تھے۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی اور مسلم لیگ بھی اس کے حامی تھے ۔اس قرار داد نے تو آنے والی حکومت کے لیے بڑا چیلنج پیدا کردیا ہے۔ اگر وہ اس پر عمل کرتی ہے تو بین الاقوامی اداروں سے بھی لڑنا پڑے گا اور معاشی طور پر بھی وقتی مسائل ضرور سر اٹھائیں گے اور ہمارے حکمران خواہ فوجی ہوں یا سویلین اتنے جراتمند نہیں ہوتے اس لیے اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اس قرار داد پر عملدرآمد نہیں ہوگا اور یہ شریعت کے ایک حکم کے ساتھ مزید کھیل ہوگا۔ اول تو ایک بنیادی حکم پر عمل نہیں کیا جارہا اس پر طرہ یہ کہ اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہم بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان سینیٹ کی قرار داد پر عمل کرے جس طرح نگراں حکومت اور بہت سے ایسے کام کررہی ہے جو اس کے دائرے میں نہیں ہیں اسی طرح اس قرار داد پر بھی عمل کرڈالے یہ تو اس کی بنیادی ذمے داری بھی ہے اس کا حلف بھی سب نے اٹھایا ہے۔ اپنے حلف میں ان سب نے اللہ کے قانون کو بالادست اور قرآن و سنت کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن یہاں حلف کی پاسداری کس نے کی ہے۔