انتخابات سے قبل پشاور میں دہشت گردی 

235

پشاور کے علاقے یکہ توت میں منگل کی شب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی انتخابی مہم کے دوران بم دھماکے سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار اور بشیر بلور کے صاحب زادے ہارون بلور سمیت کم ازکم 12 افراد جاں بحق اور 30 سے زاید زخمی ہوگئے۔ خیبر پختون خوا میں رواں سال یہ بم دھماکے کا نواں واقعہ ہے جس میں مجموعی طور پر 32 افراد جاں بحق اور 65 زخمی ہوچکے ہیں۔ اب تک رپورٹ ہونے والے بم دھماکوں کے واقعات میں 14 جنوری کو بنوں میں، 3 فروری کو سوات میں، 23 فروری کو دیر رنگ روڈ پر، 30 مارچ کو ہتھالا روڈ کولاچی 3 مئی کو جانی خیل بنو میں یکم مئی کو جنرل بس اسٹینڈ بنو ٹاؤن 17 مئی کو مال روڈ نوشہرہ 7 جون کو میدان سرکل لوئر دیر اور پشاور کے واقعات شامل ہیں۔ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد سے صرف 15 دن پہلے ہونے والے تازہ سانحہ سے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پشاور سے کراچی تک ماحول خوفزدہ ہوچکا ہے۔ کے پی کے میں ہونے والے دھماکے انتخابی مہم کے دوران ہونے سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ ان واقعات کا مقصد انتخابات کو سبوتاژ کرنا ہے۔
28 جون کو روزنامہ جسارت کراچی نے اپنی خبر میں نشاندہی کی تھی کہ انتخابات کے قریب الیکشن کو سبوتاژ کرنے کے لیے ملک کے بڑے شہروں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ خبر کے مطابق ’’ایسے واقعات کے خدشات کے باعث سیکورٹی کے اداروں کو چوکنا رہنے کی ہدایت کردی گئی ہے‘‘۔ ان اطلاعات کے باوجود پشاور میں رونما ہونے والے واقعے سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ جلسے جلوسوں کے سیکورٹی کے انتظامات ضرورت کے مطابق نہیں کیے گئے ہیں۔ انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو بھی لوگوں کے اور اپنے انتظامات کے لیے اقدامات کرنا چاہیے ناکہ سب کچھ حکومت اور سرکاری مشینری کے ایماء پر چھوڑ دیا جائے۔
منگل کی شب پشاور کے واقعے سے اندازہ ہورہا ہے کہ پولیس اور سیکورٹی کے اداروں نے جلسے کے شرکاء کی حفاظت کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے تھے۔ امن و امان اور لوگوں کی جان و مال کا تحفظ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے۔ کے پی کے میں پولیس کا نظام بہتر بنانے کی بازگشت عام ہے لیکن لگتا ہے کہ پولیس کے امور میں لوگوں کا تحفظ شامل نہیں ہے یا ترجیحی نہیں ہے۔ حالاں کہ پولیس سمیت تمام سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کا تعلق سیکورٹی کے بہترین انتظامات سے مشروط ہوتا ہے۔ رواں سال ہونے والے یکے بعد دیگرے نو واقعات بھی سیکورٹی کے نظام کی ناکامی ظاہر کرتے ہوئے کے پی کے پولیس کے اقدامات و انتظامات پر سوالیہ نشان ہیں۔ انتخابات کا پرامن اور بلا خوف انعقاد بھی صرف اسی صورت میں ممکن ہوگا جب عوام کو یہ یقین ہو کہ ان کی جانوں کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ لوگوں کے تحفظ کی ذمے داری ان دنوں نگراں صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن سیکورٹی کے حوالے سے لگتا ہے کہ نگراں حکومت ہو یا منتخب دونوں ہی ’’لکیر پیٹنے‘‘ تک محدود رہی ہیں اور ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ذمے داریوں میں انتخابات کا پرامن اور شفاف انعقاد شامل ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ ماحول کو جنگی بنیادوں پر پرسکون بنائے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے گھروں سے نکل سکیں۔ بصورت دیگر انتخابی عمل سبوتاژ ہوکر دہشت گردوں کے مقاصد پورے ہوجائیں گے۔ جس کی تمام تر ذمے داری الیکشن کمیشن، پولیس اور سیکورٹی اداروں پر عائد ہوگی۔ اس بار عام انتخابات ایک ایسے ماحول میں بھی ہورہے ہیں جب قومی احتساب بیورو اور عدالتیں غیر معمولی فعال ہیں۔ عدالتوں اور نیب کا متحرک ہونا اور فوج کی نگرانی میں انتخابات کا انعقاد کرپٹ اور عوام کو مایوس کرنے والے سیاسی عناصر کو ’’ایک آنکھ نہیں بھا رہا‘‘۔ اس لیے ان کی خواہش ہوگی کہ انتخابات ملتوی ہوجائیں۔ اس لیے بھی تمام متعلقہ اداروں کو اپنی خامیوں کو چند روز کے اندر 25 جولائی تک دور کرنا ہوگا۔
خیال رہے کہ ملک میں 25 جولائی کو تیسرے عام انتخابات ہوں گے جس کے تحت پہلی بار مسلسل تیسرے جمہوری دور کا آغاز ہوگا۔ اس سے قبل ملک کی تاریخ میں کوئی جمہوری دور مکمل ہوسکا تھا اور نہ ہی بلا تعطل الیکشن کا انعقاد ہوا تھا۔ توقع ہے کہ پاک فوج اور الیکشن کمیشن پاکستان بہترین حکمت عملی کے تحت25 جولائی کو شفاف، بلا خوف اور منصفانہ انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجائے گی اور تیسرا مسلسل جمہوریت کا دور شروع ہوجائے گا۔