شریعت اور پاکستانی قانون

1246

سندھ کے رہنما نثار کھوڑو کی تیسری بیوی کا انکشاف ہوا ہے جس کا ذکر انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں نہیں کیا تھا۔ ایسے اور بھی کئی امیدوار ہیں جنہوں نے ا پنی بیویوں کی تعداد چھپائے رکھی۔ نثار کھوڑو تیسری بیوی کو چھپانے کے جرم میں نا اہل قرار دیے گئے ہیں۔ ان کی نا اہلی کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہاکہ زبانی شادی اور طلاق کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں اور دوسری بیویوں کی اجازت کے بغیر شادی کرنا جرم ہے۔ شادی رجسٹر نہ کرانے پر نثار کھوڑو پر مقدمہ قائم ہوسکتا ہے۔ جنرل ایوب خان کے بنائے ہوئے عائلی قوانین کے مطابق ضرور یہ جرم ہے لیکن پھر یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان کا قانون شریعت کے مطابق ہے اور آئین میں اسلامی قوانین کو بالادستی حاصل ہے۔ اسلامی قانون اور شریعت میں نہ تو دوسری یا تیسری شادی کرنے سے پہلے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے نہ ہی اس کی رجسٹریشن لازمی ہے۔ رجسٹریشن کسی تنازع سے بچنے کے لیے تو ضروری ہوسکتی ہے مگر شریعت میں اس کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ زبانی شادی یا زبانی طلاق کوئی جرم اور خلاف قانون حرکت ہے۔ عملاً تو یہ دونوں کام زبانی ہی ہوتے ہیں اور ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ شادی طلاق اور غلام کو آزاد کرنا اگر مذاق میں بھی کہہ دیا جائے تو اس کا اطلاق ہوجاتا ہے۔ اگر مرد اور عورت کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں ایک دوسرے کو قبول کرلیں تو شادی ہوجاتی ہے۔ ولیمے کا اصل مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شادی کا گواہ بنانا ہے۔ نکاح و طلاق کا اندراج ایک سماجی ضرورت ہے تاکہ بعد میں کوئی تنازع نہ ہو اور تحریری ثبوت موجود رہے۔ لیکن زبانی نکاح اور طلاق کو غیر شرعی اور غیر اسلامی ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چنانچہ یہ نہ کہا جائے کہ پاکستان کے قوانین شریعت کے مطابق ہیں۔ اس موقع پر فاضل چیف جسٹس نے ایک محاورہ بھی دہرایا کہ ’’نمازیں بخشوانے گئے، روزے گلے پڑگئے۔‘‘ اہل ایمان اس محاورے کے استعمال سے گریز کریں کیونکہ اس میں ’’روزے گلے پڑنا‘‘ انتہائی غیر اسلامی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے روزے اس لیے فرض کیے کہ لوگ تقویٰ اختیار کریں اور یہ دوسری امتوں پر بھی واجب تھے۔ مذکورہ محاورہ استعمال کرنے والوں کو توبہ کرنی چاہیے کہ اصل غیر اسلامی تو یہ محاورہ ہے۔