نادیدہ قوتیں

333

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پشاور میں اے این پی کے اجتماع پر خودکش حملے اور ہارون بلور سمیت متعدد افراد کی شہادت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم غیر معمولی نادیدہ طاقتوں سے لڑ رہے ہیں جو ایک مستحکم اور پر امن پاکستان نہیں چاہتیں لیکن ہم رکنے والے نہیں، دہشت گردوں کو شکست دیں گے، مسلح افواج اور پاکستانی قوم مستحکم پاکستان کے لیے کوششیں جاری رکھیں گی۔ ان شاء اﷲ ایسا ہی ہوگا لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ جن دہشت گردوں کو شکست دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے، کیا یہ وہی نہیں جن کی کمر بارہا توڑی جاچکی ہے؟ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی منظم کوشش اور سازش تو اسی دن سے شروع ہوگئی تھی جس دن تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا اعلان ہوا اور یہ کام 14 اگست 1947ء سے بہت پہلے شروع ہوگیا تھا۔ ان سازشوں کے ڈانڈے برعظیم پر قابض حکومت برطانیہ سے جاکر ملتے ہیں جس نے بمجبوری تقسیم تو گوارہ کی اور ہندوستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹا لیکن اس خطے کو اپنے تسلط میں اور محتاج بنائے رکھنے کے لیے کانٹے بھی بچھادیے۔ یہ وطن عزیز سویلینز یا عام شہریوں کی جہد مسلسل کے نتیجے اور بے شمار قربانیوں کے طفیل حاصل ہوا اور اس میں فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے فوج ویسے ہی بکھری ہوئی تھی اور پاکستان کے حصے میں جو فوج آئی وہ منظم بھی نہیں تھی، فوجی ساز و سامان بھی بھارت نے روک لیا تھا اور سب سے بڑا ستم یہ تھا کہ پاکستان کی فوج کا سالار ایک انگریز جنرل گریسی تھا جو تاج برطانیہ کا وفادار تھا۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جب جب پاکستان پر برا وقت پڑا فوج نے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا مگر اس کے کردار کی وجہ سے پاکستان دولخت بھی ہوا۔ پاکستان کی سول ملٹری تاریخ بڑی پیچیدہ اور نشیب و فراز سے بھرپور ہے۔ اس وقت بھی اس میں مزید الجھاؤ آرہاہے اور دونوں طرف سے نادیدہ قوتوں کا تذکرہ ہورہاہے۔ جنرل باجوہ نے نادیدہ قوتوں کو پاکستان کے عدم استحکام کا ذمے دار ٹھیرایا ہے اور زیر عتاب میاں نواز شریف بھی نادیدہ قوتوں کا رونا روتے رہتے ہیں جنہیں خلائی مخلوق کا نام دیا ہے۔ گویا سول ملٹری قیادت نادیدہ قوتوں پر متفق ہیں۔ جنرل باجوہ نے محض ہوا میں تیر نہیں چلایا ہوگا۔ ان کے پاس ٹھوس ثبوت بھی ہوں گے کہ یہ نادیدہ قوتیں کون کون سی ہیں۔ پاک فوج کا سربراہ بے بنیاد بات نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی سیاست اور آئندہ یا سابق انتخابات میں فوج کے کردار کے بارے میں زبان زد عام تو بہت کچھ ہے لیکن گزشتہ دنوں ہی آئی ایس پی آر کے ڈائرکٹر جنرل آصف غفور نے کھل کر ان افواہوں کی تردید کی ہے کہ انتخابات سے فوج کا کوئی براہ راست تعلق ہے اور عوام جسے منتخب کریں گے وہ فوج کے لیے بھی قابل قبول ہوگا۔ نادیدہ یا دیدہ قوتوں کی بحث سے قطع نظر کچھ واقعات ایسے ضرور ہورہے ہیں جن سے انتخابات یا صاف شفاف انتخابات مشکوک ہوتے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ بدھ سے لاہور اور گرد و نواح میں جس طرح بے تحاشا گرفتاریاں کی جارہی ہیں ان سے ظاہر ہے کہ کچھ قوتیں میاں نواز شریف کی آمد کے موقع کو کسی بڑے تصادم میں بدلنا چاہتی ہیں۔ لاہور کو پولیس اور رینجرز کے حوالے کرکے مکمل طور پر ناکا بندی کردی گئی ہے اور بلدیاتی کونسلروں تک کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مار کر گرفتاریاں کی جارہی ہیں۔ اس کا رد عمل ضرور ہوگا اور آج، جمعہ کو میاں نواز شریف کی آمد پر احتجاج اور ہنگاموں میں جان ڈالنے کے لیے نگران حکومت یا کوئی نادیدہ قوت سرگرم عمل ہے۔ لوگوں کو بھڑکانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے اور کوئی ایسا نہیں جو انتظامیہ کو اس حماقت سے روکے۔ جب انتظامیہ نے یہ منصوبہ بندی کر ہی لی ہے کہ میاں نواز شریف کو لاہور ائرپورٹ سے باہر ہی نہ آنے دیا جائے اور اندر ہی سے انہیں ہیلی کاپٹر یا چھوٹے طیارے میں لاد کر اسلام آباد پہنچادیا جائے تو شہر کی ناکا بندی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیا یہ 12 مئی 2007 کی ریہرسل نہیں کی جارہی جب ایک فوجی ڈکٹیٹر نے ایم کیو ایم کے کارندوں کے ذریعے کراچی کی ناکا بندی کروادی تھی اور دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی؟ گرفتاریوں اور ناکابندی نہ کرنے سے زیادہ سے زیادہ یہی تو ہوتا کہ چند ہزار افراد ائرپورٹ تک پہنچ جاتے اور باہر ہی نعرے بازی کرکے منتشر ہوجاتے ایک لاڈلے عمران خان نے طنز کیا ہے کہ کیا ایک چوراعظم کشمیر فتح کرکے آرہاہے جس کے استقبال کی تیاریاں ہیں۔ لیکن ان کے شو کو کامیاب بنانے کی کوشش تو پنجاب کی انتظامیہ کر رہی ہے اور یہ کام نگران حکومت اپنے بل بوتے پر نہیں کرسکتی۔ آج اگر کوئی سانحہ رونما ہوا تو اس کی ذمے داری انتظامیہ اور نادیدہ قوتوں پر عاید ہوگی اور آج یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ انتخابات کا معاملہ کس سمت میں جارہاہے۔ عمران خان میں سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی ہے اور وہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ بس اب وزارت عظمیٰ ان کی جیب میں ہے۔ بیساکھیوں کے سہارے پہلے بھی اقتدار منتقل ہوتا رہا ہے،آئندہ بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ سہارے پائیدار نہیں ہوتے۔ بھٹو، بے نظیر، جونیجو اور میاں نواز شریف تو پھر بھی حکومت کرنے کا تجربہ رکھتے تھے لیکن جب نظروں سے اترگئے تو کوڑے دان میں پھینک دیے گئے۔ اس وقت ساری توپوں کا رخ میاں نواز شریف کی طرف ہے اور دوسروں سے صرف نظر کیا جارہاہے حتیٰ کہ آصف زرداری کو بھی چھوٹ دی جارہی ہے جو اینٹ سے اینٹ بجانے چلے تھے۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی تو عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں لیکن آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور اتنے بڑے لیڈر ہیں کہ عدالتوں میں پیش ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ خود عمران خان بھی گریزاں رہے ہیں۔ اگر انہیں اقتدار میں لے بھی آئے تو انہیں بھی خطرہ ہی رہے گا کہ کیا پتا کب مہربانوں کی نظریں بدل جائیں۔ باجوہ کی اس بات میں کیا شک ہے کہ نادیدہ قوتوں کو پر امن پاکستان پسند نہیں۔