ختم نبوتؐ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

352

افراد ہوں یا جماعتیں، قومیں ہوں یا تہذیبیں سب اپنی ترجیحات سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کی جیسی ترجیحات ہوتی ہیں وہ ویسا ہی ہوتا ہے۔ کہنے کو پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، معاشرے میں ہر طرف اسلام کا شور برپا ہے، بلاشبہ اس شور کی بھی اہمیت ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ نایاب ہیں جن کی ترجیح اوّل اسلام ہو۔ اس حوالے سے عام لوگوں کا حال ابتر ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ضمن میں ان لوگوں کا حال کیا ہوگا جو پاکستان کے Power Structure کا حصہ ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام آباد کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی بہت قیمتی انسان ہیں۔ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی محبت ڈالی ہوئی ہے۔ یہ محبت کبھی توہین رسالتؐ کے حوالے سے کلام کرتی ہے اور کبھی توہین رسالتؐ کے سلسلے میں ریاستی اداروں کی بے حسی کے حوالے سے سامنے آتی ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے اسلام آباد میں دھرنے کے حوالے سے بھی سخت ریمارکس دیے اور فرمایا کہ میں مارا جاؤں یا گمشدہ افراد کی فہرست میں میرا نام آجائے میں وہی کہوں گا جسے حق سمجھتا ہوں۔ یہ وہ بات ہے جسے وہی شخص کہہ سکتا ہے جسے واقعتاً موت سے ڈر نہ لگتا ہو، جسے واقعتاً یقین ہو کہ زندگی اور موت انسانوں کے نہیں خدا کے ہاتھ میں ہے، پاکستان کے پاور اسٹرکچر میں موجود ہو کر اسلام کی بات کرنا اس حوالے سے بھی خطرناک ہے کہ آپ پہچان لیے جاتے ہیں اور آپ پر ترقی کے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ پاور اسٹرکچر میں ترقی سے محرومی موت سے کم سزا نہیں مگر جسٹس شوکت صدیقی نے نفسیاتی اعتبار سے اس محرومی کو پھلانگ کر دکھایا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح انہیں مارے جانے یا گمشدہ ہوجانے کا خوف نہیں اسی طرح انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں کہ وہ آج جس مقام پر ہیں اس سے آگے بڑھ سکیں گے یا نہیں۔ بہرحال یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 4 جولائی 2018ء کو ایک اور قابل فخر کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے ایک فیصلے میں قرار دیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ نے ختم نبوتؐ کے قانون میں تبدیلی کے حوالے سے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی۔ فیصلے میں ختم نبوتؐ کے قانون پر حملے کے حوالے سے نواز لیگ کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سابق وفاقی وزیر انوشہ رحمن اور تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی شفقت محمود کا نام لیا ہے۔ فیصلے میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ مسئلے کے حوالے سے راجا ظفر الحق کی سربراہی میں قائم کی گئی رپورٹ کو شائع کرے۔
کوئی مسلمان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ختم نبوتؐ کے تصور پر حملہ کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ جان کا بدلہ مال ہوتا ہے اور ایمان کو خطرہ لاحق ہو تو جان دینا معمولی بات ہے۔ اس لیے کہ ایک مسلمان ایمان سے انسان، ایمان سے مسلمان اور ایمان سے اللہ کا محبوب بنتا ہے۔ پاکستان کو اس حوالے سے پوری مسلم دنیا پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ پاکستان میں ختم نبوت کے تحفظ کے حوالے سے علما نے طویل جدوجہد کی ہے اور اس طویل جدوجہد کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا اور ختم نبوتؐ کو تحفظ مہیا کیا گیا۔ اس جدوجہد کی قیمت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولانا عبدالستار نیازی کو اس حوالے سے سزائے موت سنادی گئی تھی۔ چناں چہ بھٹو جیسا سیکولر اور لبرل حکمران بھی مذہبی جماعتوں علما اور پوری قوم کی جدوجہد کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوا۔ مگر میاں نواز شریف کی حکومت کی ایمان فروشی اور جرأت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے دن دہاڑے ختم نبوتؐ کے تصور پر حملہ کیا۔ حملے کا سراغ لگالیا گیا تو حلف نامے میں کی جانے والی ترمیم واپس لی مگر ذمے دار کا تعین کرنے سے شعوری طور پر گریز کیا۔ عوام کا دباؤ بڑھا تو قانون کے وفاقی وزیر زاہد حامد سے استعفا لے لیا گیا۔ لیکن یہ اشک شوئی کی ناکام کوشش تھی۔ عوامی دباؤ مزید بڑھا تو نواز لیگ کے رہنما راجا ظفر الحق کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ ختم نبوتؐ پر حملے کے ذمے دار کا تعین کرے اور اس سلسلے میں سفارشات پیش کرے۔ مگر میاں نواز شریف اینڈ کمپنی نے اپنے ہی رہنماؤں کی نگرانی میں تیار ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کرنے میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ یہاں تک کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس معاملے کا نوٹس لے کر حکم جاری کرنا پڑا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ نواز لیگ کے دور میں ختم نبوتؐ کے تصور پر حملہ کیوں ہوا اور شریف خاندان اس سلسلے میں کچھ بھی کرنے سے گریز کیوں کیا؟ یہ کوئی قیاس آرائی نہیں میاں نواز شریف کے اپنے بیانات سے ثابت ہے کہ وہ ہندوؤں کے بھگوان اور مسلمانوں کے ربّ کو ایک سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ مسلمانوں کا خدا ایک ہے اور ہندو ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خداؤں کو مانتے ہیں۔ وہ چاند سورج کی پوجا کرتے ہیں، درختوں کو پوجتے ہیں یہاں تک کہ ہندوستان میں ایسے مندر بھی موجود ہیں جہاں چوہوں کو پوجا جاتا ہے۔ بلکہ اب تو ہندوستان میں ایک ہندو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی پوجا شروع کردی ہے۔ میاں صاحب کو گزشتہ 30 سال میں کبھی مساجد کے حوالے سے پریشان نہیں دیکھا گیا مگر کٹاس راج کے مندر سے وہ اپنے والہانہ عشق کا اظہار کرچکے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ہندوؤں کے تہوار ہولی میں رنگ کھیلنا چاہتے ہیں، مغرب اور بھارت کو پاکستان میں ایسے ہی رہنما کی ضرورت ہے۔ یہ امر بھی راز نہیں کہ مغرب ایک ہزار سال سے اسلام اور رسول اکرمؐ کی ذات پر حملے کررہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے لیے فضا سازگار ہوجائے۔ چناں چہ مغرب نے میاں صاحب کو ختم نبوتؐ پر حملے کے سلسلے میں اُکسایا اور نواز لیگ نے ختم نبوت پر حملہ کیا۔ بلاشبہ اس سلسلے میں انوشہ رحمن کا نام سامنے آیا ہے مگر کوئی نہیں جانتا کہ نواز لیگ کا کوئی رہنما میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔ چناں چہ انوشہ رحمن نے جو کچھ کیا ان تینوں یا ان میں سے کسی ایک کے کہنے پر کیا۔ چناں چہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت انوشہ رحمن اور شفقت محمود دونوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے اور ان سے سختی کے ساتھ تفتیش کرکے پوچھا جائے کہ انہوں نے ختم نبوت پر حملہ کس کی ہدایت یا حکم پر کیا؟۔
شریف خاندان کی اسلام دشمنی اور بدباطنی اس امر سے بھی ثابت ہے کہ نواز لیگ کے دور میں اقوام متحدہ کے اشارے پر زنابالجر کو جائز قرار دینے کی سفارش پر Noted یا قابل قبول لکھا گیا۔ ہمیں حیرت ہے کہ شریف خاندان کی اس اسلام دشمنی کے باوجود وہ کون بدبخت ہیں جو نواز لیگ کے اتحادی بنے ہوئے ہیں؟ وہ کون بدبخت ہیں جو نواز لیگ کا حصہ ہیں؟ وہ کون بدبخت ہیں جو شریف خاندان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور وہ کون بدبخت ہیں جو نواز لیگ کو ووٹ دے کر اپنی دنیا اور آخرت تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں؟ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ قادیانیوں کو احمدی قرار نہ دیا جائے اس لیے کہ احمد رسول اکرمؐ کا اسم گرامی ہے۔ مزید یہ کہ قادیانیوں کو مسلمانوں والے نام رکھنے سے بھی روکا جائے۔ اس لیے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ جناب جسٹس کی یہ تمام باتیں درست ہیں مگر ان کا یہ خیال درست نہیں کہ قوم ختم نبوتؐ کے مسئلے پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تاریخ میں عوام کچھ بھی نہیں ہوتے، اصل چیز خواص ہوتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خواص کی عظیم اکثریت کے مسائل روحانی یا مذہبی نہیں ہیں ’’سیاسی‘‘ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ختم نبوتؐ پر حملے کے حوالے سے ملک میں جتنا بڑا ہنگامہ ہونا چاہیے تھا اتنا بڑا ہنگامہ نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں کسی قابل ذکر جماعت کو احتجاج یا دھرنے کا خیال نہ آیا۔ کوئی ذرا کسی جماعت کے سربراہ یا کسی جماعت کے امیج پر معمولی سا حملہ کرکے دیکھے۔ وہ پارٹی اور اس کے رہنما حملہ کرنے والے کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیں گے۔ مگر ختم نبوتؐ کے تصور پر حملہ ہوا اور کسی کے سر پر جوں بھی رینگ کر نہ دی۔ کسی کے دل میں اسلام اور رسول اکرمؐ کی محبت نے جوش نہ مارا، چناں چہ عوام بھی کہیں متحرک نظر نہ آئے۔ چناں چہ اسلام آباد میں ایک ایسے گروہ نے دھرنا دیا جس پر خود جسٹس شوکت صدیقی نے زبردست نکتہ چینی کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ زندگی کو خلا سے بیر ہے۔ اصل لوگ کام نہیں کریں گے تو کچھ اور لوگ خلا پُر کریں گے۔ جہاں تک زنا بالجبر کے معاملے کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ تو ٹھیک طرح رپورٹ تک نہ ہوسکا اور اس سلسلے میں کسی سیاست دان نے ایک بیان جاری کرنے کی زحمت تک نہ کی۔ حالات یہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب وطن عزیز میں نظریات کی جنگ لڑنے والے صرف افراد ہوں گے۔ ان میں سے کہیں کوئی فرد سیاست میں ہوگا، کہیں کوئی فرد عدالتی نظام میں ہوگا، کہیں کوئی فرد صحافت میں ہوگا، کہیں کوئی فرد کسی تعلیمی ادارے میں ہوگا۔ رہے خواص اور خواص الخواص تو وہ صرف سیاست کریں گے۔ سیٹوں کی سیاست۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کا ڈر ہوگا کہ نظریات کی سیاست سے کہیں جی ایچ کیو ناراض نہ ہو جائے؟۔ کسی کو خوف ہوگا کہ نظریات کی جدوجہد سے کہیں ہم امریکا اور یورپ کی نظروں سے نہ گرجائیں۔ کسی کو یہ خیال لاحق ہوگا کہ نظریات کی کشمکش سے سیٹیں نہیں ملیں گی۔ اس لیے کہ نظریات معاشرے کا مسئلہ ہی نہیں رہے۔