لیڈر شپ کی ساکھ اور اعتبار

369

سابق وزیراعظم اور عدالت سے سزا یافتہ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم صفدر کو جیل پہنچا دیا گیا۔ لیکن اس سے پہلے نگران حکومت نے اپنی بے تد بیری سے پورے لاہور کو جیل خانے میں تبدیل کردیا اور تمام راستے کنٹینر لگاکر بند کردیے گئے۔ رد عمل میں جلاؤ، گھیراؤ بھی ہوا۔ اس سے بڑی حماقت پنجاب کے وزیر داخلہ کا یہ بیان تھا کہ یہ سب کچھ نماز جمعہ کو جانے والے نمازیوں کے تحفظ کے لیے کیا گیا۔ عذر حماقت بدتر از حماقت۔ گویا جمعہ کا دن پہلی بار آیا تھا اور کیا ہر جمعہ کو نمازیوں کے تحفظ کے لیے ایسے ہی اقدامات کیے جائیں گے۔ راستے بند کرکے مسلم لیگ ن کو یہ جواز بھی فراہم کردیاگیا کہ رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں تو عوام کا سیلاب ائرپورٹ پہنچ جاتا۔ کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ پنجاب کی انتظامیہ نے دانستہ یا نادانستہ مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا ہے۔ دوسری طرف ایک دن پہلے عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف کارروائی روک دی جائے بلکہ یہ سوال بھی کیا کہ ان بھائی بہن کے نام ای سی ایل میں کیوں شامل کیے گئے، عدلیہ نے تو صرف ملزمان کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کو کہا تھا۔ یہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے سند ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور ملزم نہیں ہیں۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایف آئی اے الیکشن تک سابق صدر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ لیکن جب عدالت ان کو ملزم ہی نہیں سمجھتی تو الیکشن کے بعد ہی کوئی کارروائی کیوں۔ عدالت عظمیٰ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اس سے جو تاثر پیدا ہورہاہے وہ نواز شریف کے بیانیے کو تقویت دے رہا ہے کہ تمام توپوں کا رخ مسلم لیگ ن کی طرف ہے۔ عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ فریال اور آصف زرداری کو طلب کیا نہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کو کہا، ڈی جی ایف آئی اے عدالت کا سابق حکم پڑھ کر سنائیں اور بتائیں کہاں لکھا ہے کہ ان دونوں کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ اس پر تو ان افسران کی پکڑ ہونی چاہیے جن کی وجہ سے یہ خبریں پھیلیں کہ عدالت نے ان کو طلب کیا ہے۔ ان کے گھروں پر نوٹس بھی چسپاں کیے گئے تھے۔ یہ سب کیا تھا۔ اب تک جو خبریں آئیں ان سے تو یہ تاثر بن رہا تھا کہ توازن قائم کرنے کے لیے زرداری اور ان کی بہن پر بھی ہاتھ ڈالا جارہاہے اور صرف ن لیگ نشانے پر نہیں، تحریک انصاف کے سوا سب ہی زد میں آرہے ہیں۔ آصف زرداری پر تو پہلے بھی کچھ ثابت نہیں کیا جاسکا اور اس لحاظ سے وہ اپنی سیاست میں کامیاب رہے یہ اور بات کہ زبان زد عام بہت کچھ ہے۔ محترم چیف جسٹس پاکستان نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ’’ہمیں اپنی لیڈر شپ کا اعتبار بحال کرنا ہے‘‘ چیف جسٹس نے یہ بہت اچھی اور اہم بات کی ہے لیکن لیڈر شپ کا تعین کون کرے گا، کیسے ہوگا جس کا اعتبار اور ساکھ بحال کرنا ہے۔ کیا اس کا تعین عدالت عظمیٰ کرے گی یا عوام کریں گے۔ عوام کے نزدیک تو موجودہ لیڈر شپ میں سے کسی کا بھی اعتبار ہے نہ ساکھ۔ اعتبار قائم کرنے کا مروجہ طریقہ عام انتخابات ہیں لیکن ان کے ذریعے ایسے ایسے ناقابل اعتبار لوگ سامنے آجاتے ہیں جن کی نہ اپنی عزت نفس ہوتی ہے اور نہ وہ عوام اور ملک کی عزت کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ ہر طرح کے بد کردار، شرابی اور لٹیرے انتخابات کے نتیجے میں لیڈر بن بیٹھتے ہیں۔ اصل اعتبار اور ساکھ تو وہی ہے جو عوام کی نظروں میں ہے لیکن وہ اپنے فیصلے کا اظہار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ لیڈر شپ کا اعتبار ضرور بحال ہونا چاہیے لیکن کیا عدالتوں کی طرف سے سزائیں دے کر کسی کو بے اعتبار اور کسی کو معتبر قرار نہیں دیا جاتارہا؟ عدالت عظمیٰ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے کہاکہ اسٹیٹ بینک کی کارکردگی پر شرم آتی ہے۔ اس معاملے میں بھی زرداری کا نام آیا ہے اور جہاں تک اسٹیٹ بینک کی کارکردگی کا تعلق ہے تو محترم چیف جسٹس کے علم میں یہ ضرور ہوگا کہ بینک دولت پاکستان نے مارچ 2015ء میں ایف آئی اے کو منی لانڈرنگ کی اطلاع دے دی تھی جس کے مطابق 4 اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔ اس پر ڈائرکٹر ایف آئی اے کے حکم پر تحقیقات ہوئی اور اس کے نتیجے میں مقدمے کی سفارش بھی کی گئی۔ لیکن شدید سیاسی دباؤ کی وجہ سے نہ مقدمہ درج ہوا نہ تحقیقات کو آگے بڑھایاگیا۔ دسمبر 2017ء میں پچھلے چار کھاتوں سمیت تین بینکوں کے 29 ایسے اکاؤنٹس سامنے آئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔ مشہور بینکار حسین لوائی اسی الزام میں گرفت میں لیے گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ اس بات کی تحقیقات کرے کہ مارچ 2015ء میں جو چار مشکوک اکاؤنٹس سامنے آئے تھے ان کی تحقیقات کس نے رکوائی اور ایف آئی اے پر کس نے دباؤ ڈالا۔ 2015ء میں وفاق میں ن لیگ کی حکومت تھی لیکن معاملے کا انکشاف سندھ میں ہوا جہاں پیپلزپارٹی براجمان تھی اور اصل حکومت زرداری کی تھی۔ اسٹیٹ بینک نے تو 2015ء میں اپنا فرض ادا کردیا تھا۔ لیکن سیاسی دباؤ کے سامنے تو ایف آئی اے بھی چپ کرکے بیٹھ رہی۔ اور اب زرداری کے خلاف کارروائی روک دی گئی ہے۔ لیکن عدالت عظمیٰ تو کسی سیاسی دباؤ میں آنے سے رہی۔