یہ پر اسرار بندے

400

پاکستانی قوم آج کل بہت پریشان ہے کیونکہ خارق العادت مخلوقات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے سے مہربانوں کی اصطلاح بہت معروف تھی۔ کوئی بھی پر اسرار کام ہو یا کوئی بات خارق العادت قسم کی ہوجائے تو لوگ کہتے تھے کہ یہ مہربانوں کا کام ہے۔ جیتنے والا ہار جائے یا ہارنے والا جیت جائے تو بھی یہی کہا جاتا تھا کہ مہربانوں نے جتادیا یا ہرادیا۔ اس زمانے میں بھی لوگ غائب ہوجاتے تھے لیکن اتنی بری طرح نہیں کہ لاپتا لوگوں کی معلوم تعداد ہزاروں میں پہنچ جائے۔ انہیں بھی مہربان ہی از راہ مہربانی غائب کردیتے تھے، کبھی واپس بھیج دیتے کبھی رکھ لیتے تھے۔ جنرل ضیا کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا سیاست معیشت، کھیل ہر جگہ یہ مہربان محسوس ہوتے تھے نظر نہیں آتے تھے لیکن اب یہ مہربان تیزی سے نام بدل رہے ہیں۔ تعداد بھی بڑھ گئی ہے ان کے کام میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور جب سے نواز شریف نے اپنے سارے گناہوں اور ان کی سزاؤں کا ذمے دار خلائی مخلوق کو قرار دیا ہے اس وقت سے تو یہ مہربان، خلائی مخلوق اور بھی مشہور ہوگئی ہے۔ اس کے بعد تو ہر کام خلائی مخلوق کروارہی تھی یہاں تک کہ نا اہل نواز شریف کو سزا بھی ہوگئی۔ سزا کے بعد تو ہر طرف خلائی مخلوق کا چرچا تھا۔ ایسے میں ایک صحافی بھی لاپتا ہوگیا۔ پہلے یہی بتایاگیا کہ اسے خلائی مخلوق لے گئی ہے لیکن جب وہ واپس آیا تو اس نے بتایاکہ مجھے محکمہ زراعت والے لے گئے تھے۔ اس کے بعد مہربان، خلائی مخلوق کا نام محکمہ زراعت پڑگیا اور چونکہ پاکستان زرعی ملک ہے اس لیے محکمہ زراعت پورے ملک میں بوائی، کھدائی اور کٹائی کرسکتا ہے۔چنانچہ اب کارروائیاں محکمہ زراعت کے پاس چلی گئیں۔ پرانے درخت اکھاڑ کر نئی شجر کاری کرسکتا ہے۔ مہربان سے خلائی مخلوق بننے کے دوران میں کئی واقعات بھی ہوئے ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کا انٹرویو اس متنازع رپورٹر نے لے لیا جس کے حوالے سے ڈان لیکس کا سارا معاملہ چلتارہا۔
خلائی مخلوق کا معاملہ شاید اسی طرح چلتا رہتا لیکن آئی ایس پی آر کے ترجمان نے پھر ایک نام دے دیا کہ ہم خلائی مخلوق نہیں خدائی مخلوق ہیں۔ سننے میں جملہ اچھا لگا لیکن یاد آیا کہ ان مہربانوں کا ایک نام فرشتہ بھی تھا اور اب جوں ہی آئی ایس پی آر نے کہاکہ ہم خدائی مخلوق ہیں، سب یہ کہنے لگے ہیں کہ جی بالکل بجا فرمایا فرشتے خدائی مخلوق ہی ہوتے ہیں۔ اس کی مزید تصدیق اس بات سے بھی ہوگئی کہ محکمہ زراعت والا جملہ کہا گیا ہے کہ ’’جس نے جو بویا وہی کاٹے گا‘‘۔ یہ بونے اور کاٹنے والی باتیں محکمہ زراعت ہی کرتا ہے اور بالکل ٹھیک کہا گیا کہ خدائی مخلوق جو چاہے کرسکتی ہے اور یہ جو الزام ہے کہ الیکشن کی سیاسی انجینئرنگ کی جارہی ہے اس کی بھی ایک طرح سے تصدیق ہوگئی کہ جو بویا وہی کاٹا جائے گا۔ تو الیکٹ ایبلز جہاں جہاں بوئے گئے ہیں فصل کی کٹائی (25جولائی) کے دن وہاں سے مطلوبہ فصل کاٹی جائے گی۔ لیجیے انجینئرنگ، زراعت، بوائی، بیجائی، کٹائی، گڑائی اور خدائی سب کچھ مکمل۔ پھر بھی یہ وضاحت کیوں ضروری ہے کہ ہماری کوئی سیاسی وابستگی نہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ تاثر دیا گیا کہ ہماری تو وابستگی ہے۔ ادھر سے تبدیلی کا نعرہ لگتا ہے تو یہاں سے کہاجاتا ہے کہ یہ تبدیلی کا سال ہے۔ اب پھر کہہ دیا گیا کہ 25 جولائی کو عوام ملک کو ایک نئی جمہوری حکومت کی طرف لے جائیں گے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟؟ خیر اس کی مزید وضاحت نہ مانگی جائے تو اچھا ہی ہے۔ مہربان سے فرشتے، خلائی مخلوق ور اب خدائی مخلوق تک تو پہنچ چکے ہیں پھر کون سی مخلوق تک پہنچیں گے۔
پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ آرمی چیف نے بھی ایک خلائی مخلوق کی جانب اشارہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ نادیدہ قوتوں سے پر امن اور مستحکم پاکستان برداشت نہیں ہورہا۔ انہوں نے یہ بات ہارون بلور کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے کہی۔ گویا پھر خلائی مخلوق یعنی صرف پاکستانی قوم کے سیاست دان، صحافی، عوام ووٹر ہی نہیں فوج کے سربراہ کو بھی اس حوالے سے شکوہ ہے۔ جس طرح نواز شریف کو نظر نہیں آرہا کہ کوئی ہے جو ان کے خلاف فیصلے کررہاہے۔ انہوں نے اس کا الزام فوج پر لگادیا لیکن کہتے رہے کہ خلائی مخلوق سارے کام کررہی ہے۔ اب آرمی چیف نے نادیدہ قوتوں کا ذکر کیا ہے یعنی پاکستان میں فرشتے، مہربان، خلائی مخلوق، مبینہ محکمہ زراعت اور اب نادیدہ قوتیں ان میں سے کوئی بھی کسی کو نظر نہیں آتا۔ ہماری ریاست نظر نہ آنے والی قوتوں سے برسر پیکار ہے اور اسے شکست دینے کا عزم رکھتی ہے۔ میاں نواز شریف خلائی مخلوق کے خلاف برسر پیکار ہیں جو ان ہی کو نظر آرہی ہے۔ صحافی اور اخبارات بھی فرشتوں، مہربانوں اور خلائی مخلوق سے نبرد آزما ہیں۔ نبرد آزما کیا ہیں ان کے سامنے پڑے ہیں جیسے شیر کے پنجرے میں کوئی پڑا ہو۔ پھر جو کرنا ہے شیر ہی کو کرنا ہے بے چارے قلم کے نام نہاد شیر تو شعر کرسکتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے پاس اب آخری چارہ 25 جولائی کا دن رہ جاتا ہے جس موقع پر ان کو اگلے پانچ برس کے لیے اپنا نمائندہ اور حکمران چننا ہوگا۔ اگر گھر سے نہیں نکلے تو کوئی نامعلوم ان کا ووٹ بھی ڈال کر چلاجائے گا اور اگر کوئی تبدیلی، کوئی نتیجہ اور بہتری چاہتے ہیں تو پوری قوم گھروں سے نکلے اچھے لوگوں کو ووٹ دے اور اس میں مشکل بالکل نہیں ہے۔ دو کام کرنے ہیں ایک ووٹ ضرور ڈالنا ہے دوسرے اچھے لوگوں کو اور ایک کام اور ۔کم از کم پہلے کئی کئی بار منتخب ہونے والوں کو تو یکسر مسترد کردیں۔ مزیدار بات یہ ہے کہ اگر عوام نے اپنا ووٹ درست وقت پر دست لوگوں کو دے دیا تو یہ بھی ایک نادیدہ فیصلہ ہوگا۔ کوئی آپ کا بیلٹ پیپر دیکھنے نہیں آسکتا۔ بے خوف ہوکر ووٹ ڈالیں اور ہر قسم کی خلائی مخلوق کو شکست دے دیں۔ ایک اور نادیدہ مخلوق ہے جو عمران خان کی نئی بیگم کے دوست ہیں، وہ انہیں گوشت بھی کھلاتی ہیں اور باتیں بھی کرتی ہیں۔ گوشت کھا کر یہ جن کیا گل کھلاتے ہیں وہ بھی سامنے آیا ہی چاہتا ہے۔