انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے والے ہاتھ

245

ملک میں انتخابی مہم جوں جوں اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات بھی اسی رفتار سے تیز ہونے لگے ہیں۔ پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی کیمپ پر حملے نے انتخابی مہم کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ دہشت گردی کی اس کارروائی میں عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما ہارون بلور سمیت دو درجن افراد جانوں سے گزر گئے۔ اس حملے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی اور کہا کہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ بیٹھنے والے اسی انجام کے لیے تیار رہیں۔ دو روز بعد ہی متحدہ مجلس عمل کے بنوں سے امیدوار اسمبلی اکرم درانی کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس میں پچیس افراد زخمی ہوئے تاہم اکرم درانی حملے میں محفوظ رہے۔
تحریک طالبان اس وقت افغانستان کو اپنا مرکز بنائے ہوئے ہے جہاں اس کے وفاداروں کی تعداد آٹھ سے دس ہزار بتائی جاتی ہے۔ یہ سب مختلف فوجی آپریشنوں میں ڈیورنڈ لائن عبور کرکے جانے والے دہشت گرد ہیں۔ ان دہشت گردوں کا اول وآخر ہدف پاکستان کی ریاست اور پاکستان کی فوج ہے۔ چوں کہ کچھ دوسری قوتوں کا بھی یہی مقصد ہے اس لیے یہ مشترکہ مقصد کی لڑی میں پروئے گئے ہیں۔ پاکستان پر حملہ آور ہونے کی وجہ سے ان کا شمار عالمی سطح کے ’’اچھے طالبان‘‘ میں ہوتا ہے۔ پہلی بار جب پاکستان کی کوشش سے کابل میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جنگ بندی ہوئی تو اس سے اچانک خوش ہو کر امریکا نے تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا۔ اس کے عوض پاکستان سے کیا طلب کیا گیا ہوگا؟۔ یہ ناقابل فہم نہیں۔ ظاہر ہے حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ وغیرہ کی گردان سنائی گئی ہوگی۔ بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ اب افغانستان میں خوں خوار اور سفاک عسکری گروہ داعش نے بھی اپنے قدم جمانا شروع کر دیے ہیں اور شام میں لڑنے والے داعش کے لوگوں کو کوئی پراسرار ’’عالمی خلائی مخلوق‘‘ سرحدوں کی رکاوٹوں اور امیگریشن کی بندشوں سے آزاد کرکے افغانستان منتقل کر نے لگی ہے۔ اس طرح پاکستان کے پہلو میں داعش کے نام پر شدت اور دہشت کا ایک نیا الاؤ روشن کیا جانے لگا ہے۔
افغانستان میں پے در پے ہونے والی فرقہ وارانہ انداز کی کارروائیوں کے پیچھے داعش ہی ہے۔ ٹی ٹی پی اور داعش کے درمیان پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے بھی روابط بڑھنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ ایسے میں اس خبر نے دنیا کو چونکا دیا ہوگا کہ اسلام آباد میں پاکستان، ایران، چین اور روس کے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں افغانستان میں داعش کے خطرے سے نمٹنے کی تدابیر پر غور کیا گیا۔ یہ ایک معنی خیز اور دور رس اثرات کا حامل اجلاس ہے۔ جس میں صرف داعش ہی نہیں اس کے علاوہ بھی بہت سی طاقتوں کے لیے کئی پیغام مضمر ہیں۔ روسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سرگئی لاونوف کے مطابق افغانستان میں پنپنے والی داعش خطے کے تمام ملکوں کے لیے خطرہ ہے۔ روس، چین، پاکستان اور ایران افغانستان کے ہمسایہ ممالک ہیں۔ افغانستان میں اس نئے خطرے کا اُبھار ہمسایوں کو سر جوڑنے پر مجبور کر چکا ہے۔ اس سے ایک نئے عالمی اور علاقائی بلاک کے خدوخال بھی اُبھر رہے ہیں۔ انتخابات کے موقع پر اس اجلاس کا انعقاد خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ اس طرح پاکستان میں سیاسی عمل میں رکاوٹیں ڈالنا ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ منصوبہ ساز یہ چاہتے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی سمیت کئی دوسری جماعتیں انتخابی عمل سے مایوس ہو جائیں اور ان کا رکن قومی دھارے سے کٹ کر مایوسی کے عالم میں کسی اور مورچے میں پناہ لے۔
ہارون بلور کا شمار اے این پی کے ان راہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کو مایوسی کا شکار ہوکر مرکزی دھارے سے نکلنے سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، جے یو آئی سمیت خیبر پختون خوا کی معروف سیاسی جماعتوں کے نوجوان بہت تیزی سے قومی دھارے سے نکل رہے تھے۔ باقی جماعتوں سے تو شاید زیادہ امیدیں نہیں تھیں مگر اے این پی اس حوالے سے نرم چارہ بن سکتی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی نے انتخابات میں حصہ لے کر سیاسی عمل اور قومی دھارے کا حصہ بننا قبول کیا اس لیے افغانستان میں بیٹھی فورسز کو ہارون بلور کی یہ ادا پسند نہ آئی۔ اسی طرح ایم ایم اے اور جے یو آئی بھی انتخابی عمل میں شریک ہو کر درحقیقت ریاست کے مرکزی دھارے کا حصہ ہیں۔ اس وقت جب انتخابات عالمی اور علاقائی کھینچا تانی کی زد میں آکر رہ گئے ہیں سیاسی عمل میں حصہ لینے والا ہر سیاسی کارکن درحقیقت ریاست کے ساتھ کھڑا ہے۔ وفاقیت کو مضبوط بنا رہا ہے۔ ہر جماعت خود کو الگ تھلگ کرنے کے بجائے مرکزی دھارے کا حصہ بن کر قومی خدمت کر رہی ہے۔ یوں مجموعی طور پر انتخابی فضا کو خراب کرنا بیرونی عناصر کی خواہش ہے تاکہ پاکستان کا نوجوان مایوس ہو کر ان کے مذموم مقاصد کی آگ کا ایندھن بن جائے۔ اس طرح خطرات صرف کسی ایک یا چند جماعتوں کے لیے نہیں ہر اس جماعت اور شخصیت کے لیے ہے جو سیاسی عمل کا حصہ بن کر پاکستان کے آئین اور اداروں سے وابستگی کا اعلان کرتا ہے۔