سرسید اور بڑا انسان 2

406

ڈاکٹر خالد امین کے مضمون کا دوسرا اہم نکتہ انہی کے الفاظ میں یہ تھا۔
’’سرسید احمد خان اس بات کے خواہاں تھے کہ مسلمان جن حالات پر پہنچے ہیں ان حالات کو کس طرح ختم کیا جائے۔ بہت زیادہ سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان جدید مغربی علوم سے بہرہ مند ہوں۔ یہ وہ نکتہ ہے کہ جس کی زلف کے اسیر حامیان سرسید اور مخالفین سرسید دونوں ہیں۔ سرسید کے مخالف اس بات کا مذاق تو بہت اڑاتے ہیں کہ سرسید نے مسلمانوں کو مغربی تعلیم کا خوگر بنادیا ہے لیکن بہت معذرت کے ساتھ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بھی اپنی نئی نسلوں کی آبیاری کا کام سید احمد خان کے فارمولے کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ (فرائیڈے اسپیشل 17 نومبر 2017)
ڈاکٹر خالد امین کے مضمون کے اس اقتباس کا ایک جواب ’’اجتماعی‘‘ ہے اور ایک جواب انفرادی۔ مگر پہلے اجتماعی جواب ہو جائے۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ انسانی تاریخ کا جبر بسا اوقات اتنا ہولناک ہوجاتا ہے کہ فرد کیا قومیں، ملتیں، امتیں اور تہذیبی تک کچھ عرصے کے لیے اس جبر کے سامنے سر اٹھانے سے قاصر ہوجاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہندو تہذیب چھ ہزار سال پرانی تہذیب تھی۔ اس تہذیب کے دعوے کے مطابق اس کے پاس آسمانی کتاب وید کی صورت میں موجود تھی۔ ان کی تہذیب میں کرشن، رام اور گوتم جیسی شخصیات تھیں۔ اس تہذیب نے بڑے بڑے عالموں اور شاعروں ادیبوں کو جنم دیا۔ اس کے دائرے میں بڑی بڑی بادشاہتوں کے تجربات ہوئے۔ اس تہذیب کی Mythology ایسی ہے کہ یونان کی Mythology اس کے سامنے بچوں کا کھیل محسوس ہوتی ہے۔ ہندوؤں کے دعوؤں کے مطابق ان کی تہذیب نے فلسفے کی بے مثال روایت پیدا کی۔ ہندوؤں کی ریاضی دانی کا یہ عالم ہے کہ ہندوؤں نے پوری دنیا کو صفر یا Zero کا تحفہ دیا جس نے ریاضی کے امکانات کو بہت پھیلایا۔ مگر اس تہذیب میں اضمحلال پیدا ہوا تو مسلمانوں نے ہندوستان کو فتح کرلیا اور اسلامی تہذیب دوچار برس نہیں ایک ہزار برس تک ہندوستان پر غالب رہی۔ اس عرصے میں ہندوستان کی ہر چیز مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور ہندو ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ اس طویل عرصے میں حکم چلا تو مسلمانوں کا، زبان رائج ہوئی تو مسلمانوں کی، ادب تخلیق ہوا تو مسلمانوں کے تہذیبی سانچے کے مطابق۔ پہلے مسلمانوں کی زبان فارسی تھی تو ہندؤں نے فارسی سیکھی۔ پھر مسلمانوں کی اجتماعی زبان اردو ہوگئی تو ہندوؤں نے اردو کو اختیار کیا۔ مسلمانوں نے اپنے دین کے حکم اور اپنے مذہبی مزاج کے تحت ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ کی ہوتی تو ہندوؤں کا مذہب بھی بدل کر رہ جاتا۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کے کمزور پڑجانے کے بعد اقتدار ہندوؤں کے ہاتھ میں چلا جانا چاہیے تھا مگر ہندو مسلمانوں کے عہد زوال میں بھی اتنے قوی نہیں تھے کہ وہ مسلمانوں سے اقتدار چھین سکتے۔ یہ ہوتا ہے تاریخ کا جبر۔ اس کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔
یہ صورتِ حال صرف برصغیر میں رونما نہیں ہوئی۔ مسلمانوں نے اسپین فتح کیا تو یہاں بھی مسلمان چھ سو سال تک حکومت کرتے رہے۔ اس طویل عرصے میں ہر چیز مسلمانوں کے عقاید، نظریات اور تہذیبی تجربے کے مطابق ہوئی۔ اس فرق کے ساتھ کہ مسلم اسپین کا تجربہ مسلم ہندوستان کے تجربے سے قدرے مختلف تھا۔ اس پر مقامی رنگ کا غلبہ تھا۔ مگر کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ 600 سال تک اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمان اسپین کی تقدیر بنے رہے اور کوئی انہیں چیلنج نہ کرسکا۔ یعنی مسلم تہذیب کے آگے پوری یورپی تہذیب کی ایک نہ چل سکی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یورپی طاقتوں کا نوآبادیاتی دور بھی تاریخ کا ایک جبر تھا۔ اس جبر کے مسلمانوں پر مسلط ہونے کی دو بنیادی وجوہ تھیں۔ ایک یہ کہ مسلمان اپنی اصل سے دور ہو کر داخلی اعتبار سے کمزور ہوگئے تھے۔ اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ یورپی طاقتیں برتر ہتھیاروں کے ساتھ اُمت مسلمہ پر حملہ آور ہوئی تھیں۔ بدقسمتی سے سرسید اور ان جیسے لوگوں نے برتر ہتھیاروں کے تجربے کو برتر تہذیبی تجربے میں تبدیل کر کے مسلمانوں کے خلاف ہولناک سازش کی۔ ایسی سازش جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ تاریخ کا اتنا بڑا جبر تھا کہ اس کے سلسلے میں افراد کیا اقوام بھی کم پڑ گئی تھیں۔ اس صورتِ حال میں یہ کہنا بڑی سفاکی کی بات ہے کہ سرسید کے ناقد بھی اپنی نئی نسلوں کی آبیاری کا کام سرسید کے فارمولے کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ جدید مغربی تہذیب نے دنیا میں ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا کیا ہے کہ اس نے زندگی کے ہر دائرے میں اپنے ’’متبادل‘‘ کے خیال کو فنا کردیا۔ سیاسی نظام ہے تو مغرب کا ہے، معاشی نظام ہے تو مغرب کا ہے، آرٹ ہے تو مغرب کا ہے، کلچر ہے تو مغرب کا ہے، مغرب نے مشرق میں علاج کے تمام مقامی طریقوں کو بے توقیر کردیا۔ سرسید مغرب زدگی میں اس حد تک آگے بڑھے کہ مذہب اور ادب تک میں انہوں نے مغرب کو اپنا اصولِ حیات بنادیا۔ سرسید ہمارا مذہب اور تعلیم خراب کرسکتے تھے اس لیے یہ ’’نیک کام‘‘ انہوں نے خود کیا۔ البتہ مغرب کے اصولوں کے مطابق ادب تخلیق کرنے کا کام انہوں نے حالی کے سپرد کیا۔ حالی نے مغرب کا ادب دیکھا تو انہیں اپنے ادب پر شرم آنے لگی۔ میر نے کہا تھا۔
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
حالی نے فرمایا ؂
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر میں سر اٹھایا اس کو مٹا کے چھوڑا
حالی کو مغرب کے ادبی اصولوں کی روشنی میں اردو ادب پر ایک دن اتنا غصہ آیا کہ انہوں نے اردو شاعری پر تھوک دیا اور فرمایا۔
یہ اردو قصاید کا ناپاک دفتر
عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر
سرسید اور مولانا حالی کو پتا ہی نہیں تھا کہ وہ جس مغرب کو پوج رہے ہیں اس مغرب میں چھ دہائیوں بعد ہی فرائیڈ پیدا ہونے والا ہے۔ فرائیڈ کا ایک تصور Oedipus Complex کہلاتا ہے۔ آسان زبان میں اس تصور کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کا ہر بیٹا اپنے باپ سے نفرت کرتا ہے اور وہ باپ کو قتل کرنا چاہتا ہے تا کہ اپنی ماں پر قبضہ کرکے اس سے جنسی تعلقات استوار کرسکے۔ سرسید اور حالی تو اب رہے نہیں چناں چہ خیال آتا ہے کہ سرسید اور حالی کے مجسمے بنوا کر Oedipus Complex کے ہار بنوا کر سرسید اور حالی کے مجسموں کے گلے میں ڈال دیا جائے تا کہ انہیں معلوم ہوسکے کہ ان کے محبوب مغرب کے بعض تصورات کے آگے سنڈاس کی عفونت یا پاخانے کی بدبو بھی نہایت ’’معمولی چیز‘‘ ہے۔ اور یہ تو مغرب کے محض ایک تصور کا معاملہ ہے۔ مگر یہ ایک جملہ معترضہ تھا یہاں کہنے کی اصل بات یہ تھی کہ سرسید اور حالی ہمیں جس مغرب کے پیچھے لگانا چاہتے تھے اس نے زندگی کے دوسرے دائروں کی طرح تعلیم کے دائرے میں بھی متبادل کے خیال کو فنا کردیا۔ نتیجہ یہ کہ مغربی علوم کی تعلیم بھی ایک اپنی اصل میں ایک جبر ہے۔ اس جبر سے آزادی زیادہ مشکل بات نہیں مگر اس کے لیے مسلم دنیا کی سیاسی اور فکری قیادت تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔ لیکن مسلم دنیا پر مسلط سیاسی اور فکری قیادت بجائے خود مغرب کا مسلط کیا ہوا ایک جبر ہے، جو شخص اس جبر کی ان صورتوں کو نہیں سمجھتا اور پھر بھی یہ کہتا ہے کہ سرسید کے ناقد بھی کر تو وہی رہے ہیں جو سرسید نے تجویز کیا وہ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں۔ ڈاکٹر خالد امین کے اقتباس کا اجتماعی جواب دیا جاچکا۔ اب انفرادی جواب بھی عرض ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ تاریخ کے جبر کے تحت ہم نے بھی سرسید کے پیدا کردہ نظام تعلیم سے استفادہ کیا۔ لیکن الحمدللہ اس نظام تعلیم کا کوئی اثر ہماری روح، قلب اور ذہن پر نہیں ہے۔ اس کے برعکس ہم نے مغرب کو جتنا پڑھا اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخ سے محبت بڑھتی چلی گئی اور مغرب کا حقیر ہونا سامنے آتا چلا گیا۔ یہ اللہ کا احسان ہے کہ ہم نے آج تک جو رزق کمایا ہے اس میں یونیورسٹی کی ڈگری ہمارے کہیں کام نہیں آئی۔ کام آئی تو گھر کی تعلیم و تربیت اور اپنے مذہب، تہذیب اور ہمارے تاریخ کا مطالعہ اور فہم۔ اس کا کچھ نہ کچھ اثر ہمارے بچوں پر بھی ہوا ہی ہوگا۔ ڈاکٹر خالد امین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ صرف ہمارا قصہ نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو مغربی نظام تعلیم سے گزرنے کے باوجود سرسید اور ان کی پیدا کی ہوئی زریّت کی طرح مغرب سے متاثر اور مرعوب نہیں۔ بلکہ اس کے برعکس وہ مغرب کے اکثر پہلوؤں پر مدلل تنقید کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر خالد امین نے اپنے مضمون کے آخر میں بھی فرمایا ہے کہ سرسید چوں کہ دو سو سال بعد بھی زیر بحث ہیں اس لیے کیا انہیں ولن قرار دینا درست ہے؟۔ انہوں نے یہ سوال اُٹھا کر یہ بات بھی کہی ہے کہ اس سوال کا جواب ہر اس شخص سے طلب کیا جاسکتا ہے جو کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرکے اپنے مستقبل کو محفوظ سمجھتا ہے۔ عرض ہے کہ جو شخص سرسید کی پوری فکر اور عمل سے آگاہ ہونے کے باوجود انہیں ہماری تاریخ کا ولن نہیں سمجھتا اس کے ایمان، مذہب، علم اور فہم میں ایسا نقص ہے کہ جو اس کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کرسکتا ہے۔
ولن کے مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ سرسید دو سو سال سے زیر بحث ہیں اور شیطان لاکھوں کروڑوں سال سے زیر بحث ہے اور اس کے ولن ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ ڈاکٹر خالد امین کی یہ بات درست ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم فرد کے مستقبل کو محفوظ کردیتی ہے مگر انہیں یہاں صرف مستقبل کے بجائے اقتصادی مستقبل کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے تھی۔ بلاشبہ فرد کا اقتصادی مستقبل بڑا اہم ہے مگر اس سے کئی ہزار گنا زیادہ اہم فرد کا روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور فکری مستقبل ہے۔ سرسید کے تخلیق کیے ہوئے نظام تعلیم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اقتصادی مستقبل کو تو محفوظ کردیتا ہے مگر طالب علموں کی عظیم اکثریت کے روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور فکری مستقبل کو تاریک کردیتا ہے۔ یہاں اقبال کا ایک شعر یاد آیا ؂
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان مدت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
اقبال سے بہت پہلے اکبر الٰہ آبادی دیوبند کے مدرسے کو ’’دل روش‘‘ ندوۃ العلما کو ’’زبان ہوش مند‘‘ اور علی گڑھ کو ایک ’’معزز پیٹ‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ پوری انسانی تاریخ کا تجربہ ہمارے سامنے ہے پیٹ نے آج تک انسان کو بڑا نہیں بنایا۔ چناں چہ تعلیم کو پیٹ پر کھڑا کرنے والے سرسید بھی ہرگز بڑے نہیں ہوسکتے۔