انتخابات ملتوی کرانے کی سازشیں

416

پے درپے سانحات اس طرح پیش آرہے ہیں جیسے تسبیح کا دھاگا ٹوٹنے سے دانے ایک ایک کرکے گرتے ہیں۔ ایک عرصہ ہوگیا وطن عزیز پاکستان دہشت گردی اور تخریب کاری کا شکار ہے۔ کسی آپریشن کے نتیجے میں کچھ دن امن رہتا ہے اور پھر شر پسند سر اٹھانے لگتے ہیں۔ کتنی ہی بار دعوے کیے گئے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی لیکن ہر دعوے کے بعد دہشت گردوں نے اپنی موجودگی کا ثبوت فراہم کردیا۔ یہ صحیح ہے کہ خودکش حملوں کو روکنا آسان نہیں کیونکہ جو خود کو مارنا چاہے اسے جب اور جہاں روکنے کی کوشش ہوگی وہ اپنے آپ کو اڑا لے گا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر ایسی کئی کوششیں ناکام بھی بنائی ہیں اور دہشت گردوں کو واردات سے پہلے ہی روکا ہے۔ لیکن ان کوششوں کو مزید مربوط اور فعال کرنا ہوگا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چپے چپے پر نگرانی اور تلاشی کا جال پھیلا ہوا ہے جس کے نتیجے میں تخریب کار پکڑے بھی گئے ہیں مگر وہ اپنا وار کر ہی جاتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ کہیں کوئی کسر رہ گئی ہے یا اس جال کے سوراخ اتنے بڑے ہیں جن میں سے دہشت گرد نکل جاتے ہیں۔ جگہ جگہ تلاشی کے باوجود خودکش حملہ آور کئی کلو بارودی مواد لے کر کیسے نکل جاتے ہیں، ہماری ایجنسیاں تو ایسا لٹریچر بھی پکڑ لیتی ہیں جو ان کے خیال میں خطرناک ہوتا ہے۔ دہشت گردوں اور تخریب کاروں کو پاکستان دشمن قوتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے لیکن ان ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کو ایندھن تو ملک کے اندر ہی سے ملتا ہے، تخریب کار یہیں سے دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ ایک طویل بحث ہے کہ لوگ، خاص طور پر نوجوان اپنی جان دینے پر کیسے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ کیا ان کا ’’برین واش‘‘ کیا جاتا ہے، جنت کا راستہ دکھایا جاتا ہے یا کوئی بڑا دنیاوی لالچ دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ چلتے پھرتے بم بن جاتے ہیں۔ اپنی جان دینا اور وہ بھی دوسروں کی جان لینے کے لیے آسان نہیں ہے۔ ماہرین نفسیات اس گتھی کو سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں لیکن کسی واضح نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔ تخریب کاری کے واقعات ترقی یافتہ ممالک میں بھی پیش آتے ہیں لیکن بیشتر واقعات کا سبب دماغی خرابی ہوتا ہے کہ بلا وجہ کسی مجمع پر یا اسکول میں گھس کر فائرنگ کردی، اپنی محرومیوں کا بدلہ دوسروں سے لیا لیکن پاکستان میں خودکش حملہ آور مسلمان ہی ہوتے ہیں اور مسلمان یہ جانتے ہیں کہ ناحق کسی کے قتل کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بننا ہے۔ پھر وہ کون لوگ ہیں جو نوجوانوں کے ذہن میں یہ نقش کرتے ہیں کہ دوسروں کی جان لینا باعث نجات اور جنت کا حصول ہے۔ ایسی ترغیب دینے والے کبھی اپنی جان پیش نہیں کرتے۔ تحریک طالبان پاکستان کے بعد اب ایک نیا فتنہ داعش یا دولت اسلامیہ عراق و شام کے نام سے کئی ممالک میں تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس نے افغانستان میں جڑ پکڑنے کے بعد پاکستان کا رخ کیا ہے اور جس طرح طالبان پاکستان تخریب کاری کی ذمے داری قبول کرلیا کرتے تھے اب داعش یہی کررہی ہے اور یہ کام بھی اسلام کے نام پر ہورہا ہے، اسلامی مملکت کے نام پر۔ اطلاعات تو یہی ہیں کہ داعش کا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بھی امریکا ہی ہے اور ایسا ہے تو لازمی طور پر اس میں صہیونی ذہن بھی کارفرما ہوگا۔ پاکستان میں صرف چار دن میں کئی خونریز واقعات پے در پے پیش آئے ہیں، پشاور کے بعد بنوں اور پھر گزشتہ جمعہ کو بلوچستان کے شہر مستونگ میں خون کی ندیاں بہادی گئیں۔ پشاور اور مستونگ خودکش حملوں میں دو انتخابی امیدوار بھی شہید ہوئے اور کم از کم 132 افراد جاں بحق ہوگئے۔ بنوں میں انتخابی امیدوار سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی کے قافلے کو نشانہ بنایاگیا جس میں 4 افراد شہید ہوئے تاہم اکرم درانی محفوظ رہے۔ اگلے دن ہفتے کو امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے قافلے پر حملہ کیاگیا۔ ان واقعات سے واضح ہے کہ اصل مقصد 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اگر انتخابات ملتوی نہ ہوئے تو بھی امیدواروں کو ہراساں کرکے ان کی مہم کو محدود کیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک طرف تو امیدوار کھل کر اپنی مہم نہیں چلاسکیں گے اور دوسری طرف عوام بھی اجتماعات اور جلسوں سے دور رہنا پسند کریں گے۔ نگران وزیر داخلہ محمد اعظم خان تو یہ کہہ کر اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوگئے کہ سیاسی رہنماؤں کو سیکورٹی خدشات لاحق ہیں۔ ان خدشات کو دور کرنا کس کا کام ہے۔ پشاور میں بلور خاندان کے ایک اور مقتول ہارون بلور کے حوالے سے اعظم خان کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی دھمکی نہیں ملی تھی۔ گویا جس کو دھمکی ملے اس کو سیکورٹی فراہم کی جائے گی۔ دھمکی تو شاید مستونگ کے بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سراج رئیسانی کو بھی نہیں ملی ہوگی۔ مستونگ کا سانحہ سب سے زیادہ سنگین ہے جس میں 128 افراد جاں بحق ہوئے۔ بیشتر ہلاکتوں کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مستونگ میں کوئی معیاری اسپتال نہیں اور شدید زخمیوں کو کوئٹہ لے جایا گیا۔ نوجوان سراج رئیسانی پاکستان اور بلوچستان کا قیمتی اثاثہ تھا اور صوبے میں عرصے سے چلنے والی علیحدگی کی تحریک اور دہشت گردی کی راہ میں ایک مضبوط دیوار تھا جسے پاکستان کی سالمیت عزیز تھی۔ اس محب وطن کی ہلاکت پوری قوم کا نقصان ہے۔ عمران خان ان سانحات پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آئے۔ فرمایا کہ نواز شریف جب بھی مشکل میں آتے ہیں تو دہشت گردی شروع ہوجاتی ہے۔ یعنی انہوں نے دہشت گردی کو بھی نواز شریف سے منسلک کردیا۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن اس کے لیے ہوش و خرد سے کام لینے میں کوئی نقصان نہیں۔ مقتدر طبقے بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر دہشت گردی اور تخریب کاری کو جواز بناکر انتخابات ملتوی کیے گئے تو یہ دہشت گردوں کی کامیابی ہوگی جو یہی چاہتے ہیں۔ ان کا جواب یہی ہے کہ انتخابات بروقت ہوجائیں۔ کئی ممالک پاکستان کو مستحکم اور پرامن نہیں دیکھنا چاہتے۔ امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس اکیلا تو نہیں ہوگا، بلیک واٹر کسی نہ کسی شکل میں سرگرم ہوگی اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو تو پکڑا بھی بلوچستان سے گیا تھا۔