ناکام انقلاب اور ناتمام خواہش

358

سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا پانے کے بعد لندن سے واپس پہنچے تو انہیں صاحب زادی مریم نوازسمیت سرکاری اداروں نے اپنے حصار میں لے کر اڈیالہ جیل پہنچا دیا اور یوں سابق وزیر اعظم کی زندگی کے ایک اور پرصعوبت دور کا آغاز ہو گیا۔ اڈیالہ جیل میں میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر ایک ہی مقدمے میں مقید ہیں۔ میاں نواز شریف کی آمد پر شہباز شریف کی قیادت میں لاہور میں احتجاج تو ضرور ہوا مگر یہ احتجاج انقلاب یا توڑ پھوڑ کی شکل اختیار نہ کر سکا اور یوں معاملہ مظاہرین اور سیکورٹی اداروں کے درمیان آنکھ مچولی سے آگے نہ بڑھ سکا۔ شہباز شریف نے بھی قانونی اور آئینی حدود میں رہ کر احتجاج کرکے نہ صرف خود کو بلکہ حالات کی رسی پر ڈولتی ہوئی ریاست کو مشکل میں ڈالنے سے گریز کیا۔ نگراں حکومت نے پابندیاں عائد کرکے غیر ضروری طور پر تحریک کا سماں بنانے کی کوشش کی مگر یہ اس کے باجود نتیجہ ولے بخیر گزشت رہا۔ اگر شہباز شریف دس لاکھ کا مجمع بھی جمع کرتے تب بھی تو مظاہرین کو پرامن طور پر منتشر ہونا تھا؟۔ اگر منصوبہ اس کے سوا کچھ اور تھا تو پھر خواہش کی اس کلی کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جو بن کھلے مرجھا گئی۔
میاں نواز شریف نے جب پاکستان کے لیے رخت سفر باندھا تو یوں لگ رہا تھا کہ وہ ایک انقلاب کی تمنا میں آرہے ہیں۔ وہ اپنی واپسی کے دن کو یادگار اور ریفرنڈم بنا کر رکھ دینا چاہتے ہیں۔ عوام سے اُٹھ کھڑے ہونے کی اپیلوں میں ان کا یہی مقصد جھلک رہا تھا حالاں کہ پاکستان میں انقلاب کی ناتمام رہ جانے والی خواہشات کے حوالے سے ان کے سامنے پاکستان اور اس سے باہر بے شمار مثالیں موجود تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بے نظیر بھٹو ایک انقلاب کی خواہش لیے پاکستان لوٹ آئیں تھیں۔ ان کے استقبالی ہجوم کو دس لاکھ کا مجمع کہا گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلپائن میں مسز کوری اکینو اپنے خاوند کے قاتل صدر مارکوس کے خلاف عوامی انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے منیلا میں اس عالم میں اتری تھیں کہ مارکوس محل کے پچھلے دروازے سے عجلت میں بھاگ گیا تھا اور محل میں مسز مارکوس ہزاروں کی تعداد میں اپنے قیمتی جوڑوں اور ہیروں اور جواہرات کی عبرتناک یادیں چھوڑ کر چلی گئیں تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی زبان پر کوری اکینو بننے اور جنرل ضیاء الحق کو مارکوس بنانے کی خواہش بار بار جھلکتی تھی اور وہ بار بار مخالف کو مارکوس قرار دے رہی تھیں۔ خوابوں اور خواہشات کی بات اور مگر یہ فلپائن نہیں پاکستان تھا نہ بے نظیر بھٹو کوری اکینو بنیں نہ ضیاء الحق مارکوس بننے پائے۔ بے نظیر بھٹو بھی امریکا اور ضیاء الحق اور ان کے نظام کے خلاف اپنا ذاتی انتقام اور غصہ باہر ہی چھوڑ آئیں۔ انہوں نے ضیاء الحق کے غیر جماعتی پارلیمانی سسٹم کے ساتھ مفاہمت کی راہ نکالی اور وہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی جنیوا معاہدے کے حوالے سے طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہوئیں۔ انہوں نے امریکا کے پرچم جلانے سے کارکنوں کو منع کیا اور آئیڈیلسٹ انکلوں سے چھٹکار ہ پانا شروع کیا۔ اس طرح پیپلزپارٹی نے سسٹم کے خیمے میں سر داخل کیا اور اگلے الیکشن میں خیمہ ان کے سر پر تھا۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں نہ تو انقلاب برپا ہوتے ہیں اور نہ پہاڑ روتے ہیں۔ انقلاب ایک دھماکے، اتھل پتھل کا نام ہوتا ہے۔ خون پانی کی طرح بہتا ہے اور لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں میں انسانوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جانے کے بعد سرکاری فورسز ایک مقام پر پہنچ کر خلق خدا پر گولی چلانے سے انکار ی ہوجاتے ہیں اور باغی اور انقلابی ہجوم جبر کی علامتوں کے حصار گراتا ہوا ان پر قابض ہوجاتا ہے۔ خاک نشین تخت پر اور تخت نشین دربدر ہوجاتے ہیں۔ ایران کی حقیقی اور عرب بہار کے جعلی انقلاب تک مناظر ایک جیسے ہی دیکھے گئے ہیں۔ اس انقلاب کے لیے ایک خوں خوار شخصی حکمران اور آمر مطلق کی ضرورت ہوتی۔ امام خمینی بننے کے لیے ایک رضا شاہ پہلوی کی ضرورت ہوتی ہے تو مسز کوری اکینو بننے کے لیے مارکوس درکار ہوتا ہے۔ جبر اور جماؤ کا ماحول ضرورت ہوتا ہے۔ آمر کی جیلیں اور عقوبت خانے درکار ہوتے ہیں۔ حقوق انسانی کی بدترین خلاف ورزیوں کا سلسلہ چاہیے ہوتا ہے۔ اظہار پر ہی نہیں سوچوں اور افکار پر بھی پابندی درکار ہوتی ہے۔ طلوع صبح کو ایک سیاہ رات کی ضرورت ہوتی ہے۔ گویا کہ حالات ایک پریشر ککر کی شکل اختیار کرتے ہیں اور پھر عوامی جذبات کے بھاپ کا دباؤ اسے ایک دھماکے سے اُڑا دیتا ہے۔ اسی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں پہلے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے تھکے ہارے ڈکٹیٹر موجود رہے ہیں مگراب تو وہ دھندلا خاکہ بھی باقی نہیں رہا۔ آئین بحال ہے، آئینی عہدوں پر لوگ فائز ہیں۔ پارلیمنٹ کا ایک حصہ سینیٹ اپنا کام کر رہی ہے۔ انتخابی عمل میں مسلم لیگ ن سمیت تمام جماعتیں بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔ اس لیے اب اظہار رائے کی آزادیاں سلب تو کیا ہوں گی بلکہ فرد کو حاصل آزادیاں حد وقیود کے پیمانے سے بھی آگے نکل چکی ہیں۔ ایک فون نے ہر شخص کی رائے کو پر لگا کر اُڑا دیا ہے۔ معاشرے کا ہر فرد سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے جذبات کی بھڑاس نکالنے کے لیے آزاد ہے۔ مسلم لیگ ن کا کارکن اس میں پیش پیش ہے۔ پھر قبیلوں اور برادریوں پر مشتمل صدیوں سے چلے آنے والا نظام بھی انقلاب دوست فضاء کی راہ میں حائل رہا ہے۔ اس لیے پاکستان کا مسئلہ ٹارزن بننے سے حل ہونے والا نہیں، جو لوگ نوازشریف کو ٹارزن بننے کے مشورے دینے اور ان کی واپسی کو یوم حساب بنانے کے خواہش مند تھے ان کے ذہنوں میں انقلاب کی ایسی ہی خواہش کا لاوہ پک رہاتھا اسی لیے وہ پہلے نوازشریف اور اس کے بعد شہباز شریف کو ٹارزن بنے رہنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ نوازشریف کے ساتھ کچھ تو ان کے روایتی اور دیرینہ مشیروں نے اور کچھ نئے نویلے ڈالر خور لبرل حامیوں نے ایک بار پھر ’’ قدم بڑھاؤ نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ والا ہاتھ کر دیا اور یوں ان کے انقلاب منزل تک تو نہ پہنچ سکا اور ان کا تیرہ جولائی الطاف حسین کے بائیس اگست کی طرح بے کیف اور بے رنگ گزر گیا۔ میاں نواز شریف اور الطاف حسین دونوں کا المیہ یہ ہوا ان کا اعتماد زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ انہیں سیاسی حلقہ ارادت نے یہ باور کرایا تھاکہ ان پر افتاد آن پڑی تو انسان تو کیا ہمالیہ بھی روئے گا حالاں کہ پہاڑ رویا نہیں کرتے۔ سویلین بالادستی کے خواب کی تعبیر خاک وخون کے سمندر کی مسافت پر نہیں بلکہ چند قدم کی دوری پرہے جس دن سیاسی قیادت اپنی اسٹیبلشمنٹ پر قابو پانے کے لیے دنیا کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو سہارا لینا چھوڑ کر اپنے فیصلے اپنی ضرورتوں کے تحت کرنے اور خود اپنے اندر جمہوری کلچر کو رواج دے گی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ سے طاقت کی ریت ذرہ ذرہ ہو کر نکلناشروع ہوگی مگر یہ صرف اخلاقی طاقت کے ذریعے ممکن ہے۔a