خدارا معیشت کو سنبھالیں

339

مرکزی بینک نے آئندہ دو ماہ کی مالیاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے خوفناک صورتحال پیش کی ہے۔ جس کے مطابق ملک ادھار پر چل رہا ہے، معاشی ترقی کی رفتار توقعات سے کم ہے۔ مہنگائی زور پکڑنے خدشہ ہے، خام قومی پیداوار جی ڈی پی کی شرح 5.5 فی صد رہی، اس رپورٹ میں سب سے خطرناک بات در آمد و برآمد کا بڑھتا ہوا فرق ہے۔ برآمدات 23 ارب ڈالر کی رہیں لیکن اس کے مقابلے میں در آمدات 60 ارب ڈالر کی ہوگئیں۔ ایک اخبار نے تو سرخی جمادی کہ پاکستانیوں نے 75 کھرب کی اشیا باہر سے منگوالیں۔ اگر در آمد و برآمد کا فرق اسی طرح بڑھتا رہا تو ملک کا تجارتی توازن بری طرح تباہ ہو جائے گا۔ مرکزی بینک نے تو رپورٹ جاری کردی لیکن حکومتوں کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ تجارتی توازن پر نظر رکھیں۔ فی الحال تو نگران حکومت ہے اور وہ دو ماہ کی اس پالیسی پر غور کرے تو کم از کم آنے والی حکومت کے لیے کچھ اقدامات کرسکتی ہے۔ اگر در آمدات کی تفصیل میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ بہت سی اشیا ایسی ہیں جن کی ضرورت نہیں ہوتی وہ منگوائی جاتی ہیں، حکومتی ادارے کیا کررہے ہیں جس کی جو مرضی آرہی ہے منگوارہاہے۔ در اصل یہ رپورٹ اس معنی میں مبہم ہے کہ یہ بات پتا ہی نہیں چل رہی ہے کہ کون سی چیز منگوائی جانی چاہیے اور کون سی نہیں۔ ہمارے در آمد کنندگان بعض اشیا ڈیوٹی فری اشیا کی آڑ میں بھی منگوالیتے ہیں۔ اور بہت سی اشیا سامان تعیش کے زمرے میں آتی ہیں ان کی در آمد پر تو سختی سے پابندی ہونی چاہیے۔ اسی طرح جو مصنوعات پاکستان میں تیار ہوتی ہیں ان جیسی اشیا اور وہی چیز در آمد کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس پر سختی سے عمل کی ضرورت ہے۔ قوانین ضرور موجود ہیں لیکن حکومتیں خود عمل نہیں کرتیں۔ پاکستان اسٹیل کی مثال لے لیں قومی صنعت کو حکمرانوں ہی نے تباہ کیا ہے اور اب تو باہر سے اسٹیل منگوارہے ہیں یہ اس وقت سے شروع کردیاگیا تھا جب پاکستان اسٹیل کی پیداوار جاری تھی اور اس کو بند کرانے کی سازشیں بھی۔ یہی حال فضائی کمپنی کا بھی کیا گیا ہے۔ اگر چہ اس کا تعلق در آمد و برآمد سے براہ راست نہیں لیکن قومی مالیاتی پالیسی میں ہر وہ چیز شامل ہونی چاہیے جس کا قومی معیشت پر اثر ہوتا ہے فضائی کمپنی کو غیر ملکی فضائی کمپنی کے ہاتھوں نقصان پہنچایا جارہاہے بلکہ دیگر نجی پاکستانی فضائی کمپنیاں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ مرکزی بینک نے اپنی رپورٹ میں پیٹرولیم کی قیمتوں کا بھی حوالہ دیا ہے لیکن یہ کب تک چلے گا کہ پیٹرولیم قیمتوں میں انتہا درجے تک کمی کا فائدہ عوام کو اس کا نصف بھی نہیں پہنچایا گیا اور جوں ہی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوا عوام کو اس کا سارا بوجھ منتقل کردیاگیا۔ ظاہری بات ہے حکومتوں کی پالیسی یہی ہے کہ عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جائے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ترقی کی جو شرح 6.2 فی صد تھی وہ 5.5 فی صد کیوں ہوتی جارہی ہے۔ اس کی صاف اور سیدھی وجہ یہ ہے کہ ملک میں احتساب کے نام پر صرف ایک شخصیت کو نشانہ بنایا جارہاہے اور دوسروں کو محض اس لیے ریلیف دیا جارہاہے کہ وہ پہلے سے مل نہ جائیں اگر یہی انداز رہا تو معیشت کا دیوالیہ تو ہو ہی جائے گا جن لوگوں کو چور اور کرپٹ کہا جارہاہے وہ بھی مظلوم بن جائیں گے۔اور یہ دعویٰ کرسکیں گے کہ ہم نے معاشی ترقی کی شرح 6.2فی صد تک پہنچائی تھی لیکن نگراں حکومت کے دور میں اور مقتدر حلقوں کی وجہ سے یہ گرگئی۔ ابھی تو در آمدات پر پیشگی ادائیگی کی سہولت واپس لینے پر بھی در آمد کنندگان کا رد عمل سامنے نہیں آیا لیکن کسی بھی ملک کی معیشت کی ترقی کے لیے اس کی برآمدات میں اضافہ ضروری ہے۔ پاکستان کی برآمدات 70 برس میں کبھی قابل فخر پوزیشن میں نہیں آسکیں بلکہ پاکستانی حکومتیں ٹیکسٹائل، چمڑا، چاول، گندم، شکر جیسی اشیا کی بر آمد کے فروغ میں معاونت بھی نہیں کرتیں۔ بجلی سے محرومی صنعتوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ امن وامان بے جا قوانین، ٹیکسوں کی بھرمار، ریبیٹ دینے میں تاخیر جیسے حربے برآمدات کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سارے کام ہماری حکومتیں ہی کرتی ہیں پھر مرکزی بینک کی رپورٹیں ایسی ہی آئیں گی۔ خدارا معیشت کو سنبھالیں۔اور یہ جو ملک کے ادھار پر چلنے کی بات بتائی گئی ہے یہ کوئی نئی بات ہے۔ سارے حکمران ملک کو ادھار ہی پر چلاتے رہے ہیں۔ اس ملک کے لیے اچھے حکمران ادھار پر بھی نہیں مل رہے۔