اپنوں کی دہشت گردی!

333

پاکستان میں دہشت گردی کے انسداد کے نام پر قائم ادارے نیکٹا کے سربراہ ڈاکٹر سلمان احمد نے انکشاف کیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں اور انتخابی امیدواروں کو سیکورٹی خدشات لاحق ہیں اور تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو نشانہ بنائے جانے کا خطرہ ہے۔ یہ باتیں نیکٹا کے سربراہ نے الیکشن کمیشن حکام کو بریفنگ کے دوران بتائیں۔ اور یہ بریفنگ اس لیے کی گئی کہ بعض سینئر حکام نے بتایا تھا کہ 6 سیاستدانوں کو نشانہ بنائے جانے کا خدشہ ہے۔ اس نشاندہی کے بعد کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ ان میں سابق وزیراعلیٰ سرحد اکرم درانی پر حملہ بھی شامل ہے جن کا نام ان چھ ممکنہ افراد میں شامل تھا۔ اسے نیکٹا کی کامیابی کہیں یا کچھ اور اگر نیکٹا تک یہ معلومات ہیں کہ چھ سیاستدانوں کو نشانہ بنایا جائے گا تو بریفنگ نیکٹا کا سربراہ نہ دے بلکہ اس کی جے آئی ٹی میں تفتیش کی جائے۔ اسے یہ کیسے پتا چلا کہ سیاستدانوں کو نشانہ بنایا جانے والا ہے۔ نام کیسے سامنے آئے۔ اگر نام سامنے آرہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکٹا کے پاس ایسا ذریعہ ہے جو دہشت گردوں کی سازشوں سے اس قدر واقف ہے کہ ممکنہ ہدف سیاستدانوں کے نام بھی معلوم ہوگئے ہیں۔ لیکن نیکٹا (نیشنل کاؤنٹر ٹیر رزم اتھارٹی) کا تو مطلب یہ ہے کہ فوری طور پر ایسے گروہوں کا قلع قمع کیا جائے لیکن نیکٹا رواں تبصرہ (رننگ کمنٹری) کررہا ہے۔ یہ کام تو ہمارا برقی میڈیا بڑے زور شور سے کرتا ہے اسے ہی یہ کام دے دیا جاتا۔ نیکٹا کا یہ دعویٰ یا انکشاف بھی بڑا عجیب ہے کہ اس کام کے لیے خودکش حملہ آوروں کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ خودکش حملہ آور تو پاکستان کے تحقیقاتی اداروں کے لیے بڑی نعمت ہیں۔ جب کوئی واقعہ ہوتا ہے اسے خودکش حملہ پہلے ہی لمحے میں قرار دے دیا جاتا ہے اس کے بعد تحقیقاتی افسر مقرر ہوتا ہے پھر تحقیقات شروع ہوتی ہے۔ لیکن جب سب اسے خودکش حملہ کہہ چکے ہوتے ہیں تو تحقیقات کا رخ بھی اسی مناسبت سے ہوتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک تحصیلدار سانحہ مستونگ کا تفتیشی افسر مقرر ہوا ہے۔ یہ واقعات تحصیلداروں کی سطح سے بہت اوپر کے ہیں۔ بات نیکٹا کی کمنٹری پر ختم نہیں ہوتی حاجی غلام احمد بلور کیا کہہ گئے وہ کہتے ہیں کہ ہارون بلور کو طالبان نے نہیں اپنوں نے نشانہ بنایا ہے۔ اگر چہ کالعدم تنظیم نے اعتراف کیا ہے لیکن معاملہ کوئی اور ہے۔ یہ معاملہ کیا ہے اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ ہم نے تحقیق کرلی ہے یہ اپنوں کا کام ہے اور واضح طور پر کہا کہ اس واقعے میں اپنوں کا ہاتھ ہے۔ غلام احمد بلور پرانے اور جرأت مند لیڈر ہیں لگے ہاتھوں ان اپنوں کا نام بھی بتا دیں جن سے تیر کھانے کے بعد ان کی ملاقات ہوئی۔ نگراں حکمران تو ادھر ادھر کے تیر چلا کر جان چھڑا رہے ہیں کہ ریاست مخالف عناصر انتخاب ملتوی کرانے کی سازش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام اور سیاسی رہنماؤں کو تحفظ کیوں نہیں دیا جارہا۔ نگران وزیراعظم نے امیدواروں اور سیاسی ورکرز کی سیکورٹی یقینی بنانے کی ہدایت تو کردی ہے لیکن کیا ان رہنماؤں کی سیکورٹی بحال کریں گے جن کی سیکورٹی عدالت عظمیٰ نے واپس لے لی تھی۔ اگر ان میں سے کوئی نشانہ بنا تو کس کو الزام دیا جائے گا۔