ہم ٹی وی چینلوں پر خبریں سنتے اور دیکھتے ہیں یا پھر مذاکرے کے نام پر مجادلے۔ ان مباحثوں اور مجادلوں میں لوگوں کی اکثریت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ایک دوسرے کو لوٹا، لوٹی کہنا تو عام بات ہے لیکن کبھی بات اس سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے اور ڈراموں کا مزہ آجاتا ہے۔ چینل بدلتے ہوئے کبھی کبھی بھارتی چینل بھی سامنے آجاتا ہے۔ یہ غالباً سونی ٹی وی ہے جس پر ایک مزاحیہ پروگرام ’’نائٹ ود کپل ایک شب کپل شرما کے ساتھ‘‘ تسلسل سے آرہا ہے۔ خبروں اور مباحثوں کی کثافت دور کرنے کے لیے کچھ دیر کو ریموٹ کنٹرول پر انگلیاں رک جاتی ہیں۔ ویسے تو اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہورہاہے بعض لوگوں کو گمان ہے کہ یہ ریموٹ کنٹرول ہے۔ بہر حال مذکورہ مزاحیہ پروگرام میں ایک منظر تھا کہ ایک لڑکی کا رشتہ آتا ہے۔ وہ لڑکے سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا کیا کرسکتا ہے۔ لڑکا اپنی خصوصیات گنواتا ہے تو لڑکی سب کچھ سن کر بڑی معصومیت سے پوچھتی ہے ’’کیا تم مردوں کی آواز بھی نکال لیتے ہو؟‘‘
لڑکے کی آواز اور اس کے انداز میں نسوانیت نمایاں تھی جس نے لڑکی کو یہ سوال کرنے پر مجبور کیا۔ شاید یہ ڈرامے کا حصہ ہو لیکن سوال دلچسپ تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم وضاحت کردیں کہ اس بات کا کوئی تعلق پاکستان کی کسی شخصیت سے نہیں ہے جس پر اپنے باپ سے زیادہ ماں کا اثر ہے۔ مرزا غالب تو یہ کہہ کر کنی کتراگئے تھے کہ روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ۔ لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ روسیاہ کون؟ غالب ہی کے الفاظ میں تم بھی کہہ دیتے ہیں کہ ’’یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے‘‘۔ پاکستان پر برا وقت آتا ہی رہا ہے، کیا پتا کب کوئی وزیراعظم بن جائے اور قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہہ بیٹھے کہ ’’اذان بج رہا ہے‘‘ دیسی انڈے جوولایتی انکیوبیٹر میں رکھ دیے جائیں ان سے ایسے ہی چوزے نکلتے ہیں جو دیسی ہوکر ولایتی انداز میں بانگیں دیتے ہیں۔
جناب آصف زرداری نے اپنے نوخیز سپوت کو سیاست کی بلاخیز موجوں کے سپرد کردیا اور خود ساحل سے طوفاں کا نظارہ کررہے ہیں۔ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہاہے کہ میری تمنا ہے میں اپنی زندگی میں بلاول کو وزیراعظم بنتا دیکھ لوں۔ انہوں نے بتایاکہ بلاول 29 سال کا ہوگیا ہے۔ اس عمر میں تو لڑکے کسی کام دھندے سے لگ جاتے ہیں اور والدین کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اس کے سر پر سہرا دیکھ لیں۔ ہمیں تھوڑا سا تعجب ہوا کہ بلاول 29 برس کے ہوگئے۔ اپنی چال ڈھال اور گفتگو سے تو وہ اب بھی 19 سال کے یعنی ٹین ایجر لگتے ہیں۔ خود زرداری صاحب ہی نے تو پچھلے سال کہا تھا کہ بلاول ابھی نابالغ ہے، سیاسی نابالغ۔ ان کی اس بات سے بہت سوں کو اتفاق ہوگا، ان کو بھی جو آصف زرداری کی ہر بات سے اختلاف کرتے ہیں زرداری نے بلاول کو درجۂ بلوغت تک پہنچانے کے لیے انہیں مکتب سیاست میں ڈالا اور معمر ترین رہنماؤں کے ہوتے ہوئے اس نابالغ کو بھٹو کی پیپلزپارٹی کا چیئرمین نامزد کردیا۔ کیسا اچھا لگتا ہے جب سفید بالوں والے خورشید شاہ، دانشور اعتزاز احسن، سفید مونچھوں والے مولابخش اور قمر زماں کائرہ جیسے کھچڑی بالوں والے ’’مدبر‘‘ ایک نوخیز کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن تعجب کیا ہمیں تو یہی سبق دیا گیا ہے کہ اگر ایک نکٹا حبشی بھی تمہارا امیر ہو تو اس کی اطاعت کرو۔ یہاں تو ناک ہی ناک ہے۔ تلفظ کی توخیر ہے کہ اس میں بھی برخوردار اپنی والدہ پر گئے ہیں جن کو نہ اردو آتی تھی نہ سندھی لیکن جو لوگ رومن اردو میں تقریر لکھ کر دیتے ہیں وہ ایک بار سن بھی لیا کریں، مذکر، مونث ٹھیک کردیا کریں۔ اب اہل کراچی کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہیں کہ یہ مف۔کرین (مفکرین) کا شہر ہے تو سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے، یہ اور بات کہ کچھ کو مزہ آجاتا ہے۔ لیکن فکر کی کیا بات ہے۔ ابھی تو وہ انگریزی رسم الخط میں لکھی ہوئی تقریر اٹک اٹک کر پڑھتے ہیں، چند برس میں رواں ہوجائیں گے۔ زرداری صاحب کہتے ہیں کہ میرا بیٹا 29 برس کا ہوگیا ہے اور میں اپنی زندگی ہی میں اسے وزیراعظم دیکھنا چاہتاہوں۔ انداز و اطوار سے تو وہ 29 کے نہیں 19 کے لگتے ہیں اور خود زرداری صاحب نے کہاتھا کہ بیٹا ابھی نابالغ ہے۔ زرداری صاحب اسے بالغ تو ہونے دیں۔
آصف علی زرداری نے انکشاف کیا ہے کہ ’’بلاول سے عوام کی محبت نوشتہ دیوار ہے‘‘ یقیناًایسا ہی ہے لیکن جب عوام ان سے اپنی محبت کا عملی اظہار کرتے ہیں تو وہ بدک جاتے ہیں۔ یہ منظر ٹی وی پر بار بار دکھایا گیا کہ ایک شخص بوسہ لے کر محبت کا اظہار کر رہاتھا جو بلاول کو سخت ناگوار گزرا۔ دوسری طرف سکھر میں ایک شخص سینئر سیاست دان خورشید شاہ کے چٹاپٹ بوسے لے رہا تھا اور وہ دیوار کا نوشتہ صبر و سکون سے پڑھے جارہے تھے۔ سکھر ہی سے کسی نے ایس ایم ایس کے ذریعے شعر ارسال کیا ہے کہ:
ملتا نہیں جب اک غیرت ناہید کا بوسہ
تنگ آکے لیا کرتے ہیں خورشید کا بوسہ
اب یہ شعر ہے یا سیاسی پارٹیوں کے منشور کی طرح محض تک بندی ہے، اس کا فیصلہ کرنے والے ہم کون۔ کیا پتا کل کلاں کو بلاول سچ مچ پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں، پاکستان پر پہلے بھی تو برے وقت آتے رہے ہیں، زرداری صاحب بھی تو 5 سال نکال گئے۔