جیلوں میں بھی امتیازی سلوک

194

میاں محمد نواز شریف، ان کی بیٹی مریم اور داماد کو جیل میں بہت سی سہولتیں فراہم کردی گئی ہیں۔ ٹھنڈا پانی، ٹھنڈا کمرہ اور ٹھنڈا ماحول۔ حتیٰ کہ قید با مشقت کے قیدی کو مشقتی بھی فراہم کردیاگیا۔ کیوں نہ ہو آخر کو نواز شریف تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں اور تینوں بار اپنی ہی غلطیوں سے معزول ہوئے۔ لیکن کیا جیل کچھ لوگوں کے لیے ریسٹ ہاؤس، گھر کی سہولتوں سے مزین، آرام دہ اور بہت سوں کے لیے ایک عقوبت خانہ؟ ہر جگہ یہ امتیازی سلوک کیوں ہے اور ایک قیدی محض قیدی کیوں نہیں۔ جن لوگوں کو پاکستان کی جیلوں کی اندرونی صورتحال کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک عام قیدی جو باہر کی دنیا میں بھی بے وسیلہ ہو اس کے ساتھ جیل میں کیا سلوک ہوتا ہے۔ ہر اہلکار قدم قدم پر رشوت طلب کرتا ہے۔ ملاقات کی اجازت بھی بغیر کچھ دیے نہیں ملتی۔ یہ تو عام سی بات ہے لیکن 10 افراد کی کوٹھری میں 30 افراد کو ٹھونس دینا کہ پیر پھیلاکر سو بھی نہ سکیں۔ رفع حاجت کے لیے انتہائی گندہ انتظام اس پر مستزاد۔ لیکن وہ جو بڑے مجرم ہوتے ہیں یا جیل سے باہر بھی ان کی بادشاہت ہوتی ہے وہ محض رسمی قیدی ہوتے ہیں اور آصف زرداری جیسے تو ایسے قیدی بھی ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنی بیوی سے بند کمرے میں مل سکتے ہیں بلکہ جیل میں رہ کر بھی باہر جاکر اپنے بچوں کی سالگرہ میں شرکت کرسکتے ہیں ورنہ کسی پرائیویٹ اسپتال میں پورے اہتمام کے ساتھ قید کاٹ سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے پہلے ہی دن شور مچادیا تھا کہ انہیں سونے کے لیے آرام دہ بستر نہیں ملا، جیل کا کھانا پسند نہیں آیا اور اے سی تھانہ فرج۔ چند ماہ پرانی بات ہے کہ جمشید دستی جیل میں بند چیخ رہاتھا کہ اسے چھ دن سے کھانا نہیں ملا، اس کی کوٹھری میں مردہ سانپ اور زندہ بچھو چھوڑدیے گئے، وہ کئی راتوں سے سو نہیں سکا۔ ایسے اور بہت سے قیدی ہیں جو جیلوں میں ظلم کا شکار ہوتے ہیں اور ہورہے ہیں۔ لیکن کوئی بڑا آدمی جو زیادہ بڑا مجرم بھی ہو، ایک ہی دن میں چیخ پڑتا ہے حالانکہ اس کے ساتھ اس کے جرم کے مقابلے میں بہت نرم سلوک ہوتا ہے۔ اقتدار میں رہتے ہوئے ان حکمرانوں کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ جیلوں کی حالت سدھاریں، قیدیوں سے ناروا سلوک بند کروائیں۔ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے آرام دہ شاندار محلوں سے نکل کر ان مسائل کا ادراک کرسکیں۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے پورے ملک کو بڑا سا جیل خانہ بنادیں اور خود جیلر بن کر بیٹھ جائیں۔ کہیں تو یہ امتیازی رویہ ختم ہونا چاہیے۔ قیدی، قیدی ہی ہوتا ہے چنانچہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے جو کسی جمشید دستی کے ساتھ ہو وہی کچھ درازدستی کے مرتکب شریفوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔