آئی ایم ایف کا شکنجہ کس گیا

169

پاکستان کی کرنسی ڈالر سے بندھی ہوئی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پوری معیشت ہی رہن رکھی ہوئی ہے۔ امریکا کے اشارے کے بغیر تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک قرضہ بھی نہیں دیتا۔ عملاً پورا ملک امریکا کا بالواسطہ اسیر ہے سب کو معلوم ہے کہ امریکا پاکستان کیا کسی بھی مسلمان ملک کا دوست نہیں ہے پھر بھی حکمران اسی کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ڈالر اپنی انتہائی بلندیوں پر ہے اور ایک ڈالر 130 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ ایک ریکارڈ ہے۔ ڈالر کی قیمت چڑھنے سے سونے سے لے کر ضروریات زندگی کی ہر شے کا مہنگی ہونا لازمی ہے۔ پاکستان میں ویسے ہی مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ ڈالر کی قدر میں ہوشربا اضافے کا الزام نگران حکومت کو دیا جارہا ہے لیکن یہ اتار چڑھاؤ چند دن میں نہیں ہوجاتا بلکہ پہلے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ نگران حکومت اور اس کی نگران وزیر خزانہ کو ان معاملات سے کیا سروکار اور نہ ہی ڈالر کی قیمت میں کمی بیشی نگراں حکومت کا اختیار ہے یہ اور بات کہ اختیار سے باہر کئی کام ہورہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ سرمایہ کار بے یقینی کا شکار ہیں اور سرمایہ نکالنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ 236 کمپنیوں کے حصص کی قیمت گر گئی ہے اور ایک کھرب 57 کروڑ 97 لاکھ روپے کا نقصان ہوگیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ شدید مندی کا شکار ہے۔ ڈالر کی قیمت چڑھنے سے قرضے بھی 800 ارب روپے بڑھ گئے ہیں۔ ڈالر اوپن مارکیٹ میں 130 روپے کا ہے چنانچہ اوپن مارکیٹ سے غائب ہی ہوگیا ہے۔ درآمد کنندگان الگ پریشان ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھیں گی۔ حکومت کا بیرونی قرضہ بڑھ کر 8 ہزار 120 ارب روپے ہوگیا ہے۔ انٹر یسٹ ریٹ بھی مزید بڑھے گا۔ پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے والا اس وقت کوئی نہیں ہے۔ سیاستدانوں کا ویسے بھی معیشت کے معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں اور اس وقت تو سب کے سب انتخابی مہم میں سر سے پیر تک لگے ہوئے ہیں۔ کچھ سیاستدانوں کو اپنی سیاست چمکانے اور مخالفین پر الزامات عاید کرنے کا ایک اور موقع مل گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ نواز شریف کے اقتدار میں آنے سے پہلے ڈالر 60 روپے کا تھا جو اب 130 روپے تک پہنچا ہے۔ لیکن جنرل ضیاء الحق اور بے نظیر کے دور حکومت میں تو ڈالر 30 روپے سے بھی کم تھا۔ جب 1988ء میں بے نظیر پہلی بار وزیراعظم بنیں تو اس وقت نواز شریف نے کہا تھا کہ بے نظیر ڈالر کو 50 روپے تک پہنچا کر رہیں گی۔ لیکن ہوا یہ کہ خود نواز شریف کے دور حکومت میں ڈالر 50 روپے تک پہنچا۔ نالائقی یا آئی ایم ایف کی غلامی کا یہ قصہ بہت پرانا ہے۔ تاہم موجودہ نگراں حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی 10 دن کے اندر اندر روپے کی قیمت میں کمی کردی اور پاکستانی روپیا ڈالر کے مقابلے میں 120 روپے کا ہوگیا۔ اس وقت جسارت میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک ڈالر کو 130 روپے تک پہنچانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں اور کئی ماہ سے روپے کی قدر میں کمی پر زور دے رہے ہیں۔ چنانچہ شاہد خاقان عباسی کے دور حکومت میں اچانک ایک دن میں روپیا 110 روپے فی ڈالر سے گرا کر 115 روپے تک لے جایا گیا اور پھر ماہ جون میں نگران حکومت نے ایک ڈالر 120 روپے تک پہنچا دیا۔ نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر آئی ایم ایف کے حکم سے باہر نہیں جاسکتیں۔ وہ ایک بینکار ہیں اور اسٹیٹ بینک کی گورنر بھی رہ چکی ہیں جس کا مطلب واضح ہے کہ وہ بین الاقوامی بینکاروں کی پسندیدہ فہرست میں شامل ہیں جن کی خوشنودی کے بغیر دنیا کے کسی بھی مرکزی بینک کے سربراہ کا تقرر ممکن نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب جمہوری دور حکومت میں 5 سال کسی وزیر خزانہ، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے بغیر گزار لیے گئے تو نگران حکومت کی مختصر سی کابینہ میں وزیر خزانہ کی کیا ضرورت تھی۔ بین الاقوامی بینکاروں کی نمائندہ کو کیا روپے کی قیمت انتہائی کم سطح پر لانے کے لیے لایا گیا اور کیا انہیں اس فیصلے کا اختیار تھا؟ نگران حکومت کا مینڈیٹ تو صرف صاف شفاف انتخابات کرا کے رخصت ہوجانا ہے۔ روپے کی قیمت گرانے کے لیے حکمرانوں کے پاس صرف ایک جواز ہے کہ اس سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ لیکن کتنا اضافہ؟ اس وقت پاکستانی درآمدات اور برآمدات میں فرق 36 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ موجودہ مالی سال میں صرف مئی تک 11 ماہ میں پاکستان نے 55 ارب 23 کروڑ ڈالر کی درآمدات کیں جن کے مقابلے میں برآمدات 21 ارب 34 کروڑ ڈالر تھیں۔ پاکستان کے پاس برآمد کرنے کو زیادہ کچھ ہے ہی کیا۔ سب کچھ تو درآمد کیا جارہا ہے، کبھی کبھی تو وزیراعظم بھی درآمد کرلیا جاتا ہے۔ دوسری طرف روپے کی قدر میں درآمدی بل اچانک 20 فیصد بڑھ گیا، قرض اور اس پر ادا کیا جانے والا سود بھی اسی مناسبت سے راتوں رات بڑھ گیا اور اسی نسبت سے مہنگائی بڑھے گی۔ کیا یہ طے ہوچکا ہے کہ پاکستان کے عوام کو روٹی سے محروم رکھا جائے گا جو اب بھی بہت سے لوگوں کو پیٹ بھر کر میسر نہیں۔ ان کا پیٹ ’’بھوک مٹاؤ پروگرام‘‘ سے بھرا جارہا ہے۔ انتخابات کے بعد جو بھی حکومت آئے گی وہ معاشی بحران پر اپنے منشور کے زور پر قابو نہیں پاسکے گی۔ عام سیاسی جماعتوں کے پاس آئی ایم ایف اور امریکا کی غلامی سے نکلنے کا کوئی پروگرام ہی نہیں ہے۔ اور وہ جو امریکا کی غلامی سے نجات چاہتے ہیں وہ بھی کھل کر اسے دشمن قرار دینے پر تیار نہیں بلکہ اقتدار ملنے کی صورت میں اس سے دوستی اور اچھے تعلقات کی بات کرتے ہیں۔ اور قرآن کہتا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست ہو ہی نہیں سکتے۔