بچوں کے ذہنی امراض ذہنی دبائو/تنائو (Childhood Stress)

224

فوزیہ عباس
عام طور پر والدین کے لیے یہ سمجھنا خاصا مشکل ہوتا ہے کہ جب ان کے بچے/ بچی کو اچھے کپڑے، خوبصورت جوتے، مہنگے کھلونے، سیر و تفریح کے مواقع، دوستوں سے ملنے کی آزادی، من پسند کھانے، بہترین اسکول سمیت ہر سہولت اور آسائش میسر ہے تو پھر بھی وہ ذہنی دبائو/تنائو کا شکار کیوں ہے؟
اسی طرح بہت سے والدین کے لیے بہ بات حیران کن ہوتی ہے کہ بھلا بچوں کی زندگی میں کون سی فکریں، پریشانیاں ہوتی/ ہوسکتی ہیں، جو انہیں ذہنی دبائو/تنائو میں مبتلا کرتی ہیں؟
والدین کی آرا کے برخلاف ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے بچے کو پُرانے زمانے کے بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ذہنی دبائو/تنائو کا سامنا ہے، کیونکہ اس کا تعلق سہولتوں اور آسائشوں بھری زندگی سے ہے نہ ہی بچپن ہر بچے کے لیے محض کھیل تماشے اور ہنسی مذاق کا نام ہوتا ہے۔
والدین کا یہ خیال/سوچ/ نظریہ بھی غلط ہے کہ بچے ہر طرح کی فکروں اور پریشانیوں سے بے نیاز ہوتے ہیں… یاد رکھیں بچہ خواہ جتنا بھی کم عمر ہو، جتنا بھی بے نیاز اور لاپروا نظر آتا ہو۔ اپنی حالت و کیفیت، جذبات و احساسات بیان کرسکتا ہو یا نہیں بہرحال کبھی نہ کبھی، مختلف حالات و واقعات میں متاثر ہوتا اور ذہنی دبائو/ تنائو کا شکار بھی ضرور ہوتا ہے۔
ہر بچے/ بچی کا مزاج، صلاحیتیں اور اہلیت دوسرے بچوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ وہ مختلف حالات، واقعات، حادثات، سانحات، باتوں اور رویوں سے مختلف انداز میں متاثر ہوتے ہیں۔ بعض بچے بڑی سے بڑی بات/ واقعے کو نظرانداز کر دیتے ہیں جبکہ بعض بچے فطرتاً زودرنج، حساس اور کمزور دل ہونے کے باعث روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی عام معمولی نوعیت کی باتوں سے بھی گہرا اثر لیتے اور گھنٹوں ان پر کڑھتے رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں گھروں اور اسکولوں میں بچوں کی اس عام حالت و کیفیت کو عموماً مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا، لہٰذا متاثرہ بچوں سے متعلق کسی قسم کے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ جبکہ امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن کی ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق 8 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں اسکول اور گھریلو معاشی مسائل ذہنی دبائو کا ایک بڑا سبب ہوتے ہیں۔ مجموعی درجہ بندی کے حساب سے 44 فیصد بچے اسکول میں کارکردگی کی وجہ سے ذہنی دبائو کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ 30 فیصد گھریلو معاشی مسائل کی وجہ سے، 10 فیصد ہم نصابی سرگرمیوں کے پریشر کے زیر اثر ہوتے ہیں اور 8 فیصد بچے والدین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی بنا پر اس کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
ذہنی دبائو کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق اس ذہنی و نفسیاتی اور جذباتی حالت و کیفیت کی درست، جامع اور مکمل تعریف بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ضرور ہے جو بچے/بچی/فرد میں اپنی مرضی، دلی آمادگی، خواہش، پسند اور استعداد کے برخلاف مجبوراً کسی کام کو کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ یا پھر کوئی ایسی غیر متوقع صورتحال جو بچے/بچی کے لیے ناقابلِ قبول ہو اور اس کے لیے دلی سکون اور خوشی کے بجائے بے دلی و بے زاری پیدا کرے۔
ذہنی دبائو کی تشخیص
ذہنی دبائو/ تنائو کی تشخیص کے لیے کسی قسم کے طبی معاینے یا لیبارٹری ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ماہر و مستند معالج اس کا اندازہ متاثرہ بچے/بچی کے رویے، مزاج اور روزمرہ معمولات کی انجام دہی میں اس کی عدم توجہ و عدم دلچسپی سے بخوبی لگا سکتا/لگا لیتا ہے۔
ڈاکٹر سے کب رجوع کریں؟
روزمرہ زندگی میں بڑوں کی طرح بچوں کو بھی مختلف قسم کے حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو ہلکے یا شدید ذہنی دبائو کا باعث بنتا/ بن سکتا ہے۔ ہلکا پھلکا معمولی نوعیت کا ذہنی دبائو مفید/بے ضرر ہوتا ہے یہ بچے/بچی کے اندر مثبت توانائی پیدا کرکے اسے پُرجوش، پُرعزم اور پُراعتماد بناتا ہے۔ یہ جوش، لگن اور حوصلہ ہی بچے/بچی کو کسی مشکل ٹیسٹ کو اچھی طرح یاد کرنے/کسی کھیل یا غیر نصابی سرگرمی میں کامیابی حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے جبکہ غیر ضروری اور شدید نوعیت کا ذہنی دبائو/ تنائو منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔
جب بچہ/بچی بہت زیادہ:
-i خاموش، اُداس، ناخوش اور ڈپریسڈ ہو
-ii اسکول میں مسائل کا شکار ہو
-iiiدوستوں اور افرادِخانہ سے تعلقات میں مسائل کا سامنا ہو
-ivبچہ/بچی اپنے منفی رویے اور غصے کو کنٹرول نہ کرپا رہا ہو
تو ایسی صورت میں والدین کو چاہیے کہ بچے/بچی کے معالج سے رجوع کریں۔