سادہ سا اصول

239

نیب عدالت کی طرف سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، ان کی بیٹی اور داماد کو سزائیں سنانے کے فیصلے پر کچھ ماہرین قانون نے سوالات اٹھادیے ہیں جس سے امکان ہے کہ عدالتی نظام کی روایات کے مطابق عدالت عالیہ فیصلہ تبدیل کرسکتی ہے۔ اگر متعدد افراد کے قتل کے الزام میں ملوث سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی ضمانت ہوسکتی ہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ نواز شریف کو اگر ضمانت مل گئی یا نیب عدالت کی طرف سے سزا کا فیصلہ بدل گیا تو بھی ان کی تا حیات نا اہلی کا فیصلہ اپنی جگہ پر رہے گا۔ شریف خاندان نے لوٹ مار کی یا نہیں اور کتنا کچھ لوٹا، اس پر تو بحث چلتی ہی رہے گی لیکن ایک سیدھا سا اصول خلیفہ دوم سیدنا عمرؓ نے مقرر کردیا تھا اور عدالتیں اس کو مد نظر رکھیں تو فیصلہ کرنا آسان ہوگا۔ اصول یہ تھا کہ جس کو بھی کسی قسم کی حکمرانی یا اختیار ملے، گورنر، عامل یا وزیر بنایا جائے اس کے اثاثوں کی فہرست حاصل کرلی جائے اور جب اسے فارغ یا معزول کیا جائے تو اس وقت کے اثاثوں کی فہرست لے لی جائے۔ معلوم ہوجائے گا کہ اس حاکم نے کیا کمایا، کتنی جائداد بنائی اور کس ذریعے سے بنائی۔ اگر فرق واضح ہو اور اثاثوں میں اضافہ کسی جائز طریقے سے نہ ہوا ہو تو وہ شخص قابل مواخذہ ہے۔ سیدنا عمرؓ کے ایک گورنر کو کئی برس حکمرانی کے بعد طلب کیے گئے تو ان کے پاس ایک کٹورہ اور ایک لاٹھی تھی، اس کے سوا کچھ نہیں تھا۔ کاش اسی اصول پر نہ صرف پاکستان بلکہ تمام مسلم ممالک میں عمل ہوتا تو کسی کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ لوٹ مار کرتا اور ناجائز اثاثوں کے انبار جمع کرسکتا۔ ایسے سادہ اصول پر عمل کروانا کوئی مشکل نہیں اور یہ کام پارلیمان کرسکتی ہے مگر اس سے پہلے ارکان پارلیمان کو بھی اس پر عمل کرنا پڑے گا۔ چور کو چور نہیں پکڑا کرتے۔ پاکستان میں تو اندھیر مچا ہوا ہے۔ نہ کبھی زرداری سے پوچھا گیا کہ وہ کھرب پتی کیسے بن گئے، سرے محل خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی، فرانس میں تاریخی محل کہاں سے خریدا، سوئٹزر لینڈ کے بینک میں پڑے ہوئے ڈالروں کی بات تو چھوڑیے، پاکستان میں وسیع زرعی زمین، شوگر ملز، کئی شہروں میں بڑے بڑے بنگلے، یہ سب کہاں سے آئے جب کہ ان کے والد تو ایک متوسط درجے کے شخص تھے اور آصف زرداری اپنے خرچ کے لیے سینما کے ٹکٹ بلیک کرتے تھے۔ اسی طرح میاں نواز شریف کو حساب دینا چاہیے کہ وزیر خزانہ، وزیراعلیٰ پنجاب اور پھر بار بار وزیراعظم بننے سے پہلے ان کے اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں۔ ایک وزیر سے لے کر ایک تھانے دار تک اگر سب پر اس اصول کا اطلاق ہو تو کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا اور عین ممکن ہے کہ کوئی ذمے داری قبول کرنے پر آمادہ ہی نہ ہو۔ اب تک تو یہ نہیں ہوا لیکن آئندہ کے لیے اس اصول پر سختی سے عمل کرایا جائے تو قوم زرداریوں، شریفوں اور ان جیسے افراد سے محفوظ رہ سکے گی۔ میاں نواز شریف سے یہی تو پوچھا جارہاہے کہ جو کمایا ہے اس کا حساب دے دو کہ رقم کہاں سے آئی اور ملک کے باہر کیسے پہنچائی گئی۔ مگر وہ تو الٹا مظلوم بن رہے ہیں۔