پاکستان میں بھارتی ایجنٹس

383

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں امریکی اور بھارتی ایجنٹوں کا قصہ یہ ہے کہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ یہ ایجنٹ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں، یہ سیاست دانوں میں مل جاتے ہیں، جرنیلوں میں مہیا ہوجاتے ہیں، دانش وروں میں مل جاتے ہیں، شاعروں اور ادیبوں میں موجود ہیں، ذرائع ابلاغ کے مالکان اور عامل صحافیوں میں آسانی کے ساتھ ان کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں بھارتی ایجنٹوں کی ’’پہچان‘‘ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ پاکستان کے مذہبی تشخص کی نفی کریں گے۔ ہندوستان اور پاکستان کو ’’ایک جیسا‘‘ باور کرائیں گے، بھارت اور اس کے آرٹ اور کلچر کی ایسی تعریف کریں گے جس کا کوئی جواز ہی نہ ہوگا۔ انہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود سرحد ایک لکیر دکھائی دے گی، وہ کہیں صاف اور کہیں مبہم لفظوں میں کہیں گے کہ بس اب ہمیں ایک ہوجانا چاہیے۔
میر شکیل الرحمن کا اخبار ’’دی نیوز‘‘ پاکستان کے اہم انگریزی اخبارات میں سے ایک ہے۔ اس اخبار کی 20 جون 2018ء کی اشاعت میں ایک ایسی بڑی رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ اس کے مندرجات سے آگاہ ہونے کے بعد کوئی بھی پاکستانی آسانی کے ساتھ ’’ملک دشمن‘‘ کہہ سکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس کے 71 طلبہ نے کلچرل ایکسچینج پروگرام کے تحت بھارت کا دورہ کیا۔ پاکستانی طلبہ کا دورہ بھارت کسی بھی اعتبار سے قابل اعتراض بات نہیں، لیکن رپورٹ میں دورہ بھارت کو جتنا ’’مقدس‘‘ بتایا گیا ہے اور دورہ بھارت کے بیان میں جو دروغ گوئی کی گئی ہے اسے نرم سے نرم الفاظ میں شرمناک اور پاکستان کے لیے توہین آمیز ہی کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً پاکستانی طلبہ میں شامل ایک طالبہ رمشا نے بتایا ’’میں بھارت کی سرحد میں قدم رکھتے ہی رو پڑی۔ میرے لیے بھارت کا ویزا حاصل کرنے کا لمحہ ایک ’’خاص لمحہ‘‘ تھا۔ اب میں اگلے سال کا انتظار کر رہی ہوں تا کہ میں پھر بھارت آسکوں‘‘۔
ہم نے درجنوں حاجیوں سے سنا ہے کہ انہوں نے پہلی بار خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ پر حاضری دی تو ان کا دل بھر آیا اور وہ بے اختیاری کے عالم میں دیر تک روتے رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کی محبت اور ہیبت ہی ایسی ہے۔ ہم نے یہ بھی پڑھا ہے کہ جب سابق مغربی اور مشرقی جرمنی کے بچھڑے ہوئے خاندان برسوں بعد ملے تو ان کے اراکین ایک دوسرے سے لپٹ کر رو دیے۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے منقسم خاندانوں کے حوالے سے اس طرح کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔ خود بھارت اور پاکستان کے منقسم خاندان کے لوگ بھی تیس چالیس سال بعد ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو زار و قطار رو پڑتے ہیں۔ مگر بھارت کے دورے پر گئی ہوئی لاہور کی رمشا کا ایسا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ وہ نہ خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کے سامنے کھڑی تھی نہ بھارت میں اس کا کوئی بچھڑا ہوا اس سے گلے مل رہا تھا مگر اس کے باوجود وہ بھارت میں داخل ہوئی تو روپڑی۔ اصل میں قصہ یہ ہے کہ رمشا کے رونے کو رپورٹ کرکے اہل پاکستان اور اہل بھارت کو یہ بتایا جارہا ہے کہ پاکستان میں بھارت کے لیے محبت کی گنگا بہہ رہی ہے۔ بس کچھ انتہا پسندوں نے اس گنگا پر پہرے بٹھائے ہوئے ہیں۔ اس عمل کی رپورٹنگ سے جو معلوم نہیں وقوع پزیر ہوا بھی یا نہیں اہل پاکستان کو ’’سکھایا‘‘ جارہا ہے کہ انہیں بھارت کے حوالے سے کیا ’’سوچنا‘‘ چاہیے؟ کیا ’’محسوس‘‘ کرنا چاہیے اور کس طرح بیتاب ہو کر بھارت کے لیے رو دینا چاہیے۔
اب آپ ذرا اپنے تخیل کو آسمان تک پرواز کرنے کا موقع عطا کریں اور بتائیں کہ پاکستانی طلبہ کا وفد جب بھارت کے دارالحکومت پہنچا ہوگا تو اس نے پہلا کام کیا کیا ہوگا؟ وہ کسی بھارتی دانش ور یا سیاست دان سے ملا ہوگا؟ اس نے حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دی ہوگی؟ اس نے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرنے کے لیے جامع مسجد دہلی یا لال قلعے کا دورہ کیا ہوگا؟ بدقسمتی سے ان میں سے کوئی خیال بھی درست نہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی طالبہ رمشا اور اس کے دوست جیسے ہی دہلی پہنچے انہوں نے دہلی کے سینما گھر میں بھارتی فلم ’’ویرے دی ویڈنگ‘‘ دیکھی۔ اس لیے کہ اس فلم پر پاکستان میں پابندی لگی ہوئی ہے۔ اس سے ایک طرف پاکستانی نوجوانوں کی بھارتی فلموں سے متعلق ’’بھوک‘‘ عیاں ہو کر سامنے آتی ہے اور دوسری جانب اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں میں اتنی بھی عزت نفس اور اتنی بھی حب الوطنی نہیں کہ وہ کم از کم وہ فلم نہ دیکھیں جس پر ان کے ملک نے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ رپورٹ میں یہ ’’مشورہ‘‘ بھی مضمر ہے کہ آئندہ بھی اگر حکومت پاکستان کسی بھارتی فلم پر پابندی لگائے تو پاکستانی نوجوانوں کو اس پابندی پر تھوک کر فلم دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، خواہ وہ ’’پاکستان مخالف‘‘ فلم ہی کیوں نہ ہو۔ رپورٹ میں پاکستانی وفد میں شامل طالبہ اقرا ندیم کے حوالے سے کیا رپورٹ ہوا ہے خود اقرا ندیم کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’مجھے‘‘ بتایا گیا تھا دہلی میں اجنبی یا غیر ملکی خواتین اغوا ہوجاتی ہیں اور وہاں خواتین کے ساتھ Rape کے کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ چناں چہ مجھ سے کہا گیا تھا کہ میں شام سات بجے کے بعد کہیں نہ جاؤں۔ مگر میں نے سرحد کے اس طرف (یعنی) پاکستان میں) جو کچھ سنا تھا درست نہ تھا‘‘۔
اس اقتباس میں موجود ‘‘مجھے بتایا گیا تھا‘‘ کے فقرے سے محسوس ہورہا ہے جیسے پاکستان میں بھارت کی اندھی دشمنی میں بھارت کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا ہورہا ہے، حکومت پاکستان، پاکستانی ذرائع ابلاغ یا پاکستانی وفد کے طلبہ کو بریف کرنے والی کسی ایجنسی کے اہلکاروں نے دہلی کی صورت حال کے حوالے سے طلبہ کو گمراہ کیا ہوا تھا۔ حالاں کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ بھارت مغربی ممالک کا اتحادی ہے اور مغربی ممالک کے ذرائع ابلاغ دہلی کو Rape Capital کہہ کر پکار رہے ہیں۔ تھامسن فاؤنڈیشن ایک مغربی ادارہ ہے۔ اس کا صدر دفتر اسلام آباد میں نہیں لندن میں ہے۔ اس ادارے نے حال ہی میں خواتین پر جنسی حملوں، جنسی ہراسگی اور خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے دنیا کے دس خطرناک ترین ممالک کی فہرست مرتب کی ہے۔ اس فہرست میں بھارت پہلے نمبر پر ہے۔ تھامسن فاؤنڈیشن کے مطابق بھارت میں روزانہ چار خواتین ریپ ہوتی ہیں۔ یعنی بھارت میں ایک سال کے دوران 1440 خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے۔
دی نیوز اور بھارت کا دورہ کرنے والے وفد کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم کا 26 فی صد اتر پردیش یا یوپی سے متعلق ہے اور 13 فی صد دہلی سے۔ تھامسن فاؤنڈیشن کے سروے کے مطابق اس نے خواتین اور بچوں کی ترقی سے متعلق بھارت کی وفاقی وزارت سے رابطہ کیا اور اپنی رپورٹ پر تبصرے کے لیے کہا تو بھارت کی وزارت نے رپورٹ پر تبصرے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تھامسن فاؤنڈیشن کی رپورٹ یا سروے کا انکار کرتی تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتی اور اگر وہ رپورٹ کا انکار کرتی تو جھوٹ بول کر پوری دنیا میں بدنام ہوتی۔ نیشنل اسٹوڈنٹ آف انڈیا کے ایک سروے کے مطابق دہلی یونیورسٹی اور اس کے ملحق 80 کالجوں کی چار طالبات میں سے ایک طالبہ جنسی ہراسگی کا شکار ہوتی ہے۔ یہ صورت حال اس وقت ہے جب 70 فی صد خواتین ہراسگی رپورٹ ہی نہیں کرتیں۔
بھارت کی Ministry of human resource and development کے وزیر سیتا پال نے 2017ء میں لوک سبھا یعنی بھارت کی پارلیمنٹ کو بتایا کہ دہلی کے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو جنسی ہراسگی کے واقعات میں دوچار دس فی صد نہیں پچاس فی صد اضافہ ہوا ہے۔ مگر دی نیوز کی رپورٹ اور اس رپورٹ میں کلام کرتی ہوئی اقرا ندیم بتارہی ہے کہ پاکستان میں اس نے دہلی کے حوالے سے جو کچھ سنا تھا وہ درست نہیں تھا۔ یہ بھارت پرستی اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کو جھوٹا ثابت کرنے کی ایک ہولناک مثال ہے۔ بلاشبہ ایسی بھارت پرستی تو خود بھارت میں نایاب ہے۔
رپورٹ کے مطابق وفد میں موجود طالبہ اقرا نے ایک اور ’’انکشاف‘‘ کیا۔ اُس نے کہا۔
’’بھارت کے طلبہ ہمیں دیکھ کر حیران رہ گئے کیوں کہ پاکستانی وفد میں شامل لڑکیاں برقع نہیں اوڑھے ہوئے تھیں اور وہ سگریٹ پی رہی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستانی صرف ’’پرتشدد‘‘ ہوتے ہیں مگر اب انہیں معلوم ہوچکا ہے کہ ہم انہی کی طرح ہیں۔ جس طرح بھارت کے کچھ ہندو مذہبی ہونے کے باوجود مندر نہیں جاتے اسی طرح پاکستان کے کچھ لوگ مسلمان ہونے کے باوجود مسجد نہیں جاتے‘‘۔
اقتباس کا آخری فقرہ چوں کہ با محاورہ ترجمہ ہے اس لیے کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم نے ترجمہ ٹھیک نہیں کیا چناں چہ اقرا کا جو فقرہ انگریزی میں کوٹ ہوا ہے ہم اسے بھی لکھے دیتے ہیں۔ اقرا نے کہا:
“Like there are religious people in india who do not go to tenpl there are similar people in pakistan”
ظاہر ہے کہ اگر ہندوؤں کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ وہ مذہبی ہو کر بھی مندر نہیں جاتے تو پاکستانیوں کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ وہ مسلمان ہو کر مسجد نہیں جاتے۔
یہ دی نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کا ایک اور ہولناک اقتباس ہے۔ پاکستان اور بھارت کا اصل فرق اور اصل مماثلت مذہب میں ہے، تہذیب میں ہے، تاریخ میں ہے۔ مگر اقرا صاحبہ نے پاکستان اور بھارت کی مماثلت کو سگریٹ میں تلاش کیا ہے۔ یعنی انہوں نے فرمایا ہے کہ بھارت کے طلبہ نے دیکھا کہ ہم بھی سگریٹ پی رہے ہیں اور پاکستان کی طالبات بھی سگریٹ پی رہی ہیں چناں چہ ہم میں کوئی فرق نہیں۔ یہ تو اچھا ہی ہوا بات آگے نہ بڑھی ورنہ جس طرح بھارت کے کچھ لوگ شراب پیتے ہیں اسی طرح پاکستان کے بعض طلبہ بھی شراب نوشی کے عادی ہیں۔ اس دائرے میں موازنہ ہوتا تو دونوں ممالک کے درمیان ایک اور مماثلت نظر آجاتی۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ پاکستانی طالبہ نے پاکستان کے شخص کو سگریٹ کی سطح تک گرادیا۔ پاکستانی طلبہ کے وفد کو اس بات پر بھی فخر محسوس ہوا کہ جس طرح بعض ہندو، ہندو ہو کر بھی مندر نہیں جاتے ٹھیک اسی طرح بعض مسلمان، مسلمان ہو کر مسجد نہیں جاتے۔ ’’نہیں جاتے‘‘ میں یہ خیال مضمر ہے کہ ’’جانا بھی نہیں چاہیے‘‘۔ دوسرا خیال اس فقرے میں یہ موجود ہے کہ مندر اور مسجد نہ جانے کے حوالے سے بھی بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے جیسے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں پاکستان کے موجودہ سفیر سہیل محمود نے دونوں ممالک میں ’’فاصلے‘‘ کم کرنے کے حوالے سے پاکستانی طلبہ کی کوششوں کو سراہا۔ پاکستانی طلبہ نے جس طرح دونوں ممالک کے فاصلوں کو کم کیا ہے وہ واضح ہے۔ پاکستان اگر واقعتا پاکستان ہوتا تو وفد کے اراکین ہی کو نہیں بھارت میں پاکستان کے سفیر کو بھی چار چھ ماہ کے لیے جیل میں ڈال دیا جاتا۔ مگر ہمارے یہاں تو ’’غداری‘‘ اس وقت وقوع پزیر ہوتی ہے جب کوئی جرنیلوں کو برا بھلا کہے، ان کی ناموس پر حملہ کرے۔